اصل ميں ہر چيز حلال ہے اور صرف حرام وه ہے جسے الله اور اس كے رسول نے حرام كيا ہے اور جس سے انهوں نے خاموشي اختيار كي ہے وه معاف ہے
لفظِ أطعمة جمع قلت ہے اس کی واحد طعام ہے۔ طعام سے مراد وہ چیز ہے جسے کھایا جائے یا پیا جائے جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي [البقرة: 249]
”جس نے اسے (پانی کو ) نہ چکھا وہ مجھ سے ہے ۔“
باب طَعِمَ يَطْعَمُ (سمع) کھانا – باب أَطْعَمَ يُطْعِمُ (افعال) کھلانا ۔
[المنجد: ص/ 466 ، القاموس المحيط: ص/ 1462]
مشروعیت:
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا [البقرة: 29]
”جو کچھ بھی زمین میں ہے اس نے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے ۔“
➋ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ [الأعراف: 31]
”کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز مت کرو ۔“
➌ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا [البقرة: 168]
”اے لوگو! اُن اشیا میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں ۔“
➍ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ [الأعراف: 157]
”وہ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے پاکیزہ اشیا حلال قرار دیتا ہے اور خبیث اشیا ان پر حرام کرتا ہے ۔“
➎ حدیث نبوی ہے کہ :
كل و اشرب والبس وتصدق من غير سرف ولا مخيلة
”کھاؤ ، پیو ، لباس پہنو اور صدقہ کرو لیکن اسراف اور تکبر کے بغیر ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2904 ، كتاب اللباس: باب البس ما شئت ما أخطاك سرف أو مخيلة ، ابن ماجة: 3605 ، نسائي: 2559 ، أحمد: 181/2]
◈ تمام غیر خبیث اشیا پاکیزہ اور حلال ہیں تاہم خبیث اشیا کی خباثت مندرجہ ذیل امور سے معلوم کی جا سکتی ہے:
➊ شارع علیہ السلام نے نص بیان کی ہو کہ فلاں چیز خبیث ہے مثلا گھریلو گدھے ۔
➋ جس کی تعریف پر نص موجود ہو مثلاً
كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير
➌ جس کی خباثت معروف ہو مثلاً چوہیا اور سانپ وغیرہ ۔
➍ شارع علیہ السلام نے جس کے قتل کا حکم دیا ہو یا جس کے قتل سے منع کیا ہو مثلاً چیل اور مینڈک وغیرہ ۔
➎ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے ، مثلاً گدھ ۔
➏ جس کی پیدائش حلال و حرام کے مابین ہوئی ہو تو أغلب تحریم ہی ہو گی ۔
➐ جس کی خباثت عارضی ہو مثلا جلالہ جانور ۔
➑ جو چیز انسان کے لیے جسمانی طور پر ضرر رساں ہو مثلا زہر ۔
➒ جو چیز عقل کو نقصان پہنچاتی ہو مثلاََ شراب اور تمام نشہ آور اشیاء وغیرہ ۔
➓ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو مثلاً کسی کافرنے ذبح کیا ہو ، یا غیراللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو وغیرہ ۔
[التعليق على سبل السلام للشيخ عبدالله بسام: 1817/4]
یاد رہے کہ جن اشیا میں یہ اسبابِ خبث موجود نہیں وہ حلال ہیں ۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا [البقرة: 29]
”وہ اللہ جس نے زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے پیدا کیا ہے ۔“
➋ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحلال ما أحل الله فى كتابه والحرام ما حرم الله فى كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
”حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس کے متعلق خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ اُن اشیا میں سے ہے جن سے اس نے درگزر فرما دیا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2715 ، كتاب الأطعمة: باب أكل الجبن والسمن ، ابن ماجة: 3367 ، ترمذي: 1716 ، صحيح الجامع الصغير: 3195]
➌ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أحل الله فى كتاب فهو حلال ، وما حرم فهو حرام ، وما سكت عنه فهو عفو فاقبلوا من الله عافية
”جسے اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا ہے وہ حرام ہے اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ معاف ہے لٰہذا اس کی معاف کردہ أشیا کو قبول کرو ۔“
[حسن: غابة امرام: 2 ، كشف الأستار للبزار: 325/3 ، 2855 ، مجمع الزوائد: 171/10 ، حاكم: 375/2]
➍ حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أن الله فـرض فرائض فلا تضيعوها ، وحد حدودا فلا تعتدوها ، وسكت عن أشياء رحمة لكم غير نسيان فلا تبحثوا عنها
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع مت کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہے انہیں تجاوز مت کرو اور جان بوجھ کر تم پر رحمت کرتے ہوئے کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے سو تم انہیں مت کریدو ۔“
[دارقطني: 183/4 ، 42]
جو أشیاء کتاب اللہ میں مذکور ہیں وہ حرام ہیں
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [المائدة: 3]
”تم پر مردار حرام کیا گیا ہے ۔“
مردار سے مراد وہ چیز ہے جو طبعی موت مر جائے ۔
وَالدَّمُ
”اور خون“
خون سے مراد دَماً مَسْفُوْحاً یعنی بہتا ہوا خون ہے ۔
وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ
”اور خنزیر کا گوشت“
گوشت کے علاوہ بھی اس کی ہر چیز بالاتفاق حرام ہے ۔
وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
”جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو ۔“
وَالْمُنْخَنِقَةُ
”جو گلا گھٹنے سے مرا ہو“
وَالْمَوْقُوذَةُ
”جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے“
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
”جو بلندی سے گر کر مر جائے“
وَالنَّطِيحَةُ
”جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو“
وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ
”جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو“
إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ
”ہاں اگر اسے ذبح کر لو تو حرام نہیں“
وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ
”اور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو“
وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ
”قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرنا “
فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [المائدة: 3]
”جسے شدید بھوک ہو اور وہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو یقیناََ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔“
➋ ایک اور آیت میں ہے کہ :
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
[الأنعام: 145]
”آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو ، یا کہ بہتا ہوا خون ہو ، یا خنزیر کا گوشت ہو ، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ اسے غیر اللہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو ۔“
پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور الرحيم ہے ۔
(ابن تیمیہؒ) ائمہ اربعہ کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ مجبور آدمی پر مردار کھانا واجب ہے ۔
[أخبار العلمية من الاختيارات الفقهية: ص/ 464]