حلالہ کرانا حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حلالہ کرانا حرام ہے
حلالہ ایسے عقد کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص مطلقہ ثلاثہ سے محض طلاق کی نیت سے ہی نکاح و مباشرت کرتا ہے تا کہ وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے ۔ اس غرض سے نکاح کرنے والے کو محلل (حلالہ کرنے والا ) اور جس کے لیے عورت کو حلال کیا جا رہا ہو اسے محلل له (یعنی پہلا شوہر ) کہتے ہیں۔
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 894 ، كتاب النكاح: باب ما جاء فى المحلل والمحلل له ، ترمذي: 1120 ، نسائي: 149/6 ، دارمي: 158/2 ، بيهقي: 208/7 ، أحمد: 448/1]
➋ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ادھار کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هو المحلل لعن الله المحلل والمحلل له
”وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1572 ، كتاب النكاح: باب المحلل والمحلل له ، إرواء الغليل: 309/6 ، ابن ماجة: 1936 ، دار قطني: 251/3 ، حاكم: 199/2 ، بيهقي: 308/7]
یہ حدیث حلالہ کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ لعنت صرف حرام کے مرتکب پر ہی ہوتی ہے۔ ہر حرام ممنوع ہوتا ہے اور ہر ممنوع کام عقد کے فاسد ہونے کا متقاضی ہے۔
[سبل السلام: 1336/3]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں لوگ حلالے کو بد کاری شمار کرتے تھے ۔
[حاكم: 199/2 ، طبراني أوسط كما فى المجمع: 267/4 ، امام ہيثمي نے اس كے رجال كو صحيح كے رجال كها هے ۔]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حلالے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا:
كلاهما زان
”دونوں بدکار ہیں ۔“
[ابن ابي شيبة: 294/4 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 38/2]
➎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میرے پاس حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں لائے گئے تو میں دونوں کو رجم کر دوں گا ۔“
[ابن ابى شيبة: 294/4 ، عبد الرزاق: 348/6]
(جمہور) حلالہ حرام ہے۔
(احناف) حلالہ جائز ہے (حتی کہ ان کی بعض کتب میں ایسے شخص کو اجر کا مستحق بھی کہا گیا ہے ) ۔
[تحفة الأحوذى: 281/4 ، نيل الأوطار: 218/4]
(ابن تیمیہؒ) حلالے کے نکاح کے بطلان پر امت کا اتفاق ہے ۔
[فتاوى النساء لابن تيمية: ص/ 242]
(ابن قیمؒ) حلالہ کرنے والے کا نکاح کسی دین میں کبھی بھی جائز نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایک صحابی نے بھی ایسا کیا اور نہ ان میں کسی نے اس کا فتوی ہی دیا ہے۔
[أعلام الموقعين: 41/3 – 43]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) حلالہ حرام ہے۔
[تحفة الأحوذى: 280/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1