حلالہ کرنا یا کروانا – شرعی احکام اور وعید
تین طلاق کے بعد رجوع کا شرعی حکم
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر عدت (تین ماہ) کے اندر رجوع کرے، یا عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرے، پھر طلاق دے اور دوبارہ رجوع کرے، اور اس کے بعد تیسری طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں وہ عورت اس شخص پر حرام ہو جاتی ہے۔ اب وہ مرد اس عورت سے رجوع نہیں کر سکتا، الّا یہ کہ وہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے اور وہ نکاح مکمل ہو، یعنی ہمبستری ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرہ 2)
’’وہ اس مرد کے لیے حلال نہیں جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے‘‘
یہاں جو نکاح مراد ہے، وہ شرعی اور مستقل نکاح ہے، یعنی ایسا نکاح جس میں مرد کا ارادہ ہو کہ وہ ہمیشہ اس عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارے۔ اگر اتفاق سے دوسرا شوہر فوت ہو جائے یا طلاق دے دے، تب عورت کو پہلے شوہر سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
حلالہ: ایک ناجائز حیلہ
بعض افراد طلاق یافتہ عورت سے عارضی مدت کے لیے اس نیت سے نکاح کرتے ہیں کہ وہ اس عورت کو طلاق دے کر پہلے شوہر کے لیے حلال بنا دیں۔ اس عمل کو "حلالہ” کہا جاتا ہے۔ شریعت میں ایسا نکاح باطل قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے”
(ترمذی۔ النکاح۔ باب ما جاء فی المحل و المحلل لہ 1120)
اسی طرح عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کیا ہوتا ہے؟” صحابہ کرام نے عرض کیا: ضرور بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت کی ہے”
(ابن ماجہ: 1936)
مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (النور 19)
’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
یہ آیت ان تمام افراد کے لیے ایک عبرت ناک تنبیہ ہے جو معاشرے میں فحاشی و عریانی کو عام کرتے ہیں۔ اخبارات، ریڈیو، انٹرنیٹ، اور میڈیا کے ذریعے جو بے حیائی گھروں میں پھیلائی جا رہی ہے، اس کے ذمہ دار افراد اللہ کے ہاں سخت مجرم ٹھہریں گے۔
◈ جو لوگ فحش مواد نشر کرنے والے اداروں میں کام کرتے ہیں،
◈ جو اپنے گھروں میں ٹی وی، فلمیں، ڈش اور کیسٹیں رکھتے ہیں،
◈ جو اپنی اولاد کے اخلاق بگاڑنے کے اسباب خود مہیا کرتے ہیں،
انہیں چاہیے کہ وہ سوچیں قیامت کے دن وہ اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ دنیا کا معمولی دکھ برداشت کرنا ممکن ہوتا ہے، مگر آخرت کا دردناک عذاب کون برداشت کر سکے گا؟
میت پر نوحہ کرنا
غم اور آنسو فطری ہیں
کسی کی وفات پر دل کا غمگین ہونا اور آنسو بہانا فطری بات ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے نواسے کی وفات پر آنسو بہائے اور فرمایا:
"یہ جذبہ شفقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحمت فرماتا ہے”
(بخاری: 1284، مسلم: 923)
نوحہ کی حرمت اور اس پر لعنت
لیکن بعض عورتیں غم کے اظہار میں حد سے تجاوز کرتی ہیں:
◈ بلند آواز سے چیخنا چلانا،
◈ چہرے پر تھپڑ مارنا،
◈ کپڑے پھاڑنا،
◈ بال نوچنا،
◈ میت کی تعریفوں کے بین کرنا،
یہ سب بے صبری اور جاہلیت کی علامات ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میت پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے چہرے کو نوچنے والی، گریبان چاک کرنے والی، اور اپنے خلاف بددعا کرنے والی عورت پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے”
(ابن ماجہ، الجنائز 1585)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے”
(بخاری۔ الجنائز باب لیس منا من شق الجیوب 1294۔ مسلم: 103)
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"اگر نوحہ کرنے والی عورت مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک کا کرتا اور خارش کی اوڑھنی ہو گی”
(مسلم۔ الجنائز۔ باب التشدید فی النیاحۃ 934)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"میں بیزار ہوں اس سے جو (موت کی مصیبت میں) سر کے بال نوچے، چلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے”
(بخاری: 1296۔ مسلم: 104)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نوحہ کرنے کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے”
(بخاری: 1292، مسلم: 927)
بدعتی تعزیت کا طریقہ
آج کل میت پر تعزیت کے نام پر:
◈ لوگ ایک مکان میں جمع ہوتے ہیں،
◈ میت کے گھر کھانا کھاتے ہیں،
یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں رائج نہ تھا۔ بلکہ اسے بھی نوحہ کی ایک شکل سمجھا جاتا تھا۔
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میت کو دفن کرنے کے بعد میت والوں کے ہاں اکٹھے ہونے اور کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ میں شمار کرتے ہیں”
(ابن ماجہ الجنائز۔ باب ما جاء فی النھی عن الاجتماع الی اھل المیت 1612)
تصویر سازی کی حرمت اور سخت وعید
عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیشک تصویر بنانے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائے گا”
(بخاری 5950، مسلم 2109)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
"قیامت کے دن تصویر بنانے والے سے کہا جائے گا: تم نے جو تصویریں بنائی تھیں، ان کو زندہ کرو”
(بخاری 5951، مسلم 2108)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"میں نے ایک باریک پردہ لٹکایا جس پر تصویریں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو چہرہ غصے سے متغیر ہو گیا اور اسے پھاڑ دیا۔ فرمایا: سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں”
(بخاری 5957، مسلم 2107)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن بلند ہو گی… اور کہے گی: میں تین قسم کے لوگوں پر مامور ہوں: (1) ظالموں پر، (2) شرک کرنے والوں پر، (3) تصویر بنانے والوں پر”
(ترمذی 2574، قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
ایک اور روایت میں:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو میری طرح تصویر بناتا ہے؟ وہ ایک دانہ یا رائی کا پیدا کر کے دکھائے”
(بخاری 5953، مسلم 2111)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"فرشتے ان گھروں میں داخل نہیں ہوتے جن میں کتا یا تصویر ہو”
(بخاری 5960)
موجودہ دور میں تصویری فتنہ
آج تصویریں ہر جگہ عام ہو چکی ہیں، خصوصاً:
◈ رسالوں اور میگزینوں میں عورتوں کی تصاویر،
◈ گھروں کی دیواروں پر لٹکے ہوئے فریم،
◈ مجسمے اور مورتیاں بطور ڈیکوریشن،
یہ سب جنسی تحریک، اخلاقی بگاڑ اور اللہ کے غضب کا سبب ہیں۔ مسلمان گھروں کو ان سے پاک رکھنا چاہیے۔