حق مہر کی ادائیگی کا شرعی حکم اور شوہر کا انکار
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، ج۱ ص۷۲۵

سوال

جناب! قرآن و سنت کی روشنی میں اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو اپنی بیوی کو حالت طہر میں طلاق لکھ کر بیک وقت مختلف تاریخوں (مثلاً: ۹۹-۷-۱۰، ۹۹-۸-۱۰، ۹۹-۹-۱۰ اور ۹۹-۹-۱۵) کے ساتھ رجسٹری اور بذریعہ ڈاک بھیج دیتا ہے؟
قرآن و سنت کے مطابق طلاق مغلظہ انتظار کی مدت پوری ہونے کے بعد واقع ہو چکی ہے۔ اب وہ مرد حق مہر ادا کرنے سے انکار کر رہا ہے حالانکہ نکاح خواں کے سامنے حق مہر طے ہوا تھا اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔

کیا حق مہر بیوی کا حق ہے یا نہیں؟

مزید یہ کہ لڑکی کو پہلی رات ہی تنگ کیا گیا کہ مہر معاف کر دے لیکن لڑکی نے معاف کرنے سے انکار کیا۔ حق مہر پلاٹوں اور زیور کی صورت میں طے ہوا تھا یعنی:

◄ پلاٹ نمبر ۱ (۵ مرلہ)
◄ پلاٹ نمبر ۱۲۱ (۱ مرلہ)
◄ ساڑھے تین تولہ زیور

اب شوہر نے صرف اس وجہ سے کہ بیوی نے مہر معاف نہیں کیا، اسے طلاق دے دی اور کہا کہ یہ نافرمان ہے۔ لڑکی یتیم ہے اور اس پر یہ ظلم کیا جا رہا ہے۔ درخواست ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق فتویٰ تحریر فرما دیں تاکہ وہ پلاٹ جو لڑکے کے نام رجسٹرڈ ہیں، مہر کے طور پر لڑکی کے نام منتقل ہو سکیں اور یہ فتویٰ قرآن و سنت کی روشنی میں مضبوط بنیاد رکھتا ہو تاکہ قانونی طور پر بھی اسے چیلنج نہ کیا جا سکے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں واضح ہے کہ طے شدہ اور مقررہ حق مہر بعد از مقاربت صحیحہ (یعنی جماع) شوہر کے ذمہ واجب الادا ہے، خواہ وہ مہر قلیل ہو یا کثیر۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴿٤﴾﴾ (النساء: ۴)
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ دے دو، پھر اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے شوق سے، خوش ہو کر کھا پیو۔‘‘

آیت میں "نحلۃ” کا مطلب

اس آیت میں لفظ نحلۃ کا مطلب فریضہ واجبہ ہے۔ جیسا کہ ابو بکر جابر الجزائری لکھتے ہیں:
(ایسر التفاسیر : ج۱ ص ۴۳۶)

مزید لکھتے ہیں: (بأن يعطوا النساء مهورهن فريضة منه تعالى فرضها على الرجل لامرأته، فلا يحل له ولا لغيره أن يأخذ منها شيئاً إلا يرضى الزوجة…) (ایسر التفاسیر : ج۱ ص ۴۳۶)

یعنی:
◄ بیویوں کا مہر دینا اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔
◄ شوہر یا کوئی اور اس میں سے بغیر عورت کی رضا کچھ نہیں لے سکتا۔
◄ اگر عورت اپنی خوشی سے کچھ مہر معاف کر دے تو پھر شوہر کے لیے لینا جائز ہے۔

مزید تشریحات

محمد سابق المصری رقم فرماتے ہیں:
(وآتوا النساء مهورهن عطاء مفروضا لا يقابله عوض…)
(فقہ السنۃ: ج۲ ص۱۳۵)

یعنی مہر ایک فرض عطیہ ہے جس کا کوئی عوض نہیں۔ اگر بیوی اپنی خوشی اور رضا سے کچھ چھوڑ دے تو حلال ہے، لیکن حیاء، خوف یا جبر کے تحت معافی جائز نہیں۔
حتیٰ کہ اگر شوہر نے بہت زیادہ مہر (قنطار) بھی دیا ہو تو بھی واپس لینا حرام ہے۔

دیگر آیات

النساء، آیت ۲۴
﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ … ﴾
’’پس جن عورتوں سے تم نے فائدہ اٹھایا (یعنی جماع کیا) انہیں ان کا مقررہ مہر دے دو۔‘‘

البقرۃ، آیت ۲۲۹ ﴿وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا …﴾
’’اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم انہیں جو کچھ دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لو۔‘‘

نتیجہ

◈ مہر عورت کا شرعی حق ہے۔
◈ اس میں کمی بیشی یا واپسی صرف عورت کی آزاد رضا سے ہو سکتی ہے۔
◈ شوہر استطاعت کے باوجود مہر ادا نہ کرے تو عورت عدالت کے ذریعے اپنا حق وصول کر سکتی ہے۔
◈ عدالت پر فرض ہے کہ عورت کا حق ثابت ہونے پر اس کی داد رسی کرے۔

فتوے کی تائید

شیخ نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگر شوہر قدرت کے باوجود مہر ادا نہ کرے تو حاکم وقت اس کی جائیداد سے بیوی کا مہر دلوا دے اور اگر پھر بھی انکار کرے تو قید کرے، کیونکہ یہ ظلم ہے۔”
(فتاوی نزیریہ: ج۲ ص۵۹۵)

خلاصہ فتویٰ

بیوی کا حق مہر (چاہے وہ پلاٹ ہو، زیور ہو یا نقدی) قرآن و سنت کے مطابق اس پر واجب الادا ہے۔

◈ شوہر کا انکار ظلم اور گناہ ہے۔
◈ لڑکی اس حق کو عدالتی طریقہ کار کے ذریعے وصول کرنے کی مکمل مجاز ہے۔
◈ عدالت پر لازم ہے کہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے مہر کی ادائیگی یقینی بنائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے