سوال :
کیا حق مہر کی ادائیگی میں تاخیر ہو سکتی ہے اور کیا اس میں زکوٰۃ واجب ہے؟
جواب :
حق مہر کی ادائیگی میں تاخیر جائز ہے اور ایک مدت کے بعد دیا گیا حق مہر بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾
(المائدة : 1)
”اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو۔“
لہذا عہد و پیمان اور اس کی شروط کو پورا کرتا ہے، جس آدمی نے حق مہر مؤجل سے ادا کرنے کی شرط طے کی تو یہ جائز ہے، چاہے تو مہر پورے کا پورا، یا بعض مؤجل سے ادا کرے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر اس نے مہر کی ادائیگی کے لیے کوئی مدت مقرر کی ہو تو وقت آنے پر ادا کردے اور اپنی ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآ ہو اور اگر اس نے مہر کی ادائیگی کو مؤجل رکھا اور اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی تو اس صورت میں مندرجہ ذیل حالتوں میں اس کی ادائیگی اس پر لازم ہوگی :
① میاں بیوی میں جدائی (طلاق )
② نکاح کا فسخ (خاتم )ہو جانا ۔
③ موت
عورت پر اس حق مہر میں سے زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اگر وہ نصاب زکوٰۃ کو پہنچ جائے، بصورت دیگر اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہے۔ اگر لوگ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے اپنائیں، اس کی شروط کو پورا کریں تو شادیوں میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ عورت اپنی مرضی اور خوشی سے حق مہر اپنے خاوند کو معاف کر سکتی ہے، بشرطیکہ اسے ڈرایا دھمکایا نہ جائے اور اسے مجبور نہ کیا جائے۔ مہر عورت کا حق ہے، اگر اسے مجبور کر کے معاف کروایا گیا تو یہ ہرگز معاف نہیں ہوگا، بلکہ خاوند کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔ بعض لوگ طلاق کی دھمکی دے کر مہر مؤجل (مؤخر) معاف کروانے کی غلط کوشش کرتے ہیں، ایسا کرنا ہرگز درست نہیں ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔