حقِ ولاء کا مالک اور اس کی بیع کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جو آزاد کرنے والا نہیں اس کے لیے ولاء کی شرط لگانا درست نہیں
لغوی وضاحت: لفظِ ولاء کا معنی ”نصرت ، قرابت ، محبت اور ملکیت“ ہے۔
اصطلاحی تعریف: ولاء ایسا تعلق ہے جس کی وجہ سے مالک اپنے آزاد کردہ غلام کا وارث بنتا ہے بشرطیکہ اس کے اقرباء موجود نہ ہوں۔
[الفرائض: ص/ 20]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بریرہ (لونڈی) آ کر کہنے لگی میں نے اپنے مالک کے ساتھ نو اُوقیہ چاندی کے عوض مکاتبت کی ہے جسے میں ہر سال ایک اُوقیہ کی صورت میں ادا کروں گی لٰہذا آپ میری مدد فرمائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”اگر تیری مجموعی رقم یکبارگی ادا کرنے کے عوض تیرا مالک حق ولاء میرے حوالے کر دے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔“ بریرہ نے اپنے مالک سے یہ پوچھا تو اس نے انکار کر دیا پھر وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ گئی ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ بریرہ نے مالک کے انکار کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سارا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا ۔ یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
خذيها و اشترطى لهم الولاء فإنما الولاء لمن أعتق
”اسے لے لو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو کیونکہ ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزادی دے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہو گئے ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
أما بعد فما بال رجال يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله عزوجل؟ ما كان من شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط ، قضاء الله أحق ، وشرط الله أوثق وإنما الولاء لمن أعتق
”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں (یاد رکھو!) جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اللہ کا فیصلہ ہی برحق ہے اور اللہ کی شرط نہایت پختہ ہے ۔ ولاء کا حق اس کو ہے جو آزاد کرے ۔“
[بخاري: 2561 ، كتاب العتق: باب ما يجوز من شروط المكاتب ، مسلم: 1504 ، موطا: 780/2 ، ابو داود: 3929 ، ترمذي: 2124 ، ابن ماجة: 2521 ، احمد: 81/6 ، عبد الرزاق: 16161 ، ابو يعلى: 411/7 ، ابن حبان: 3258 – الإحسان ، دار قطنى: 22/3 ، بيهقي: 336/5]
(ابو حنیفہؒ) ولاء کی بیع جائز ہے۔
(ابن قیمؒ) انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ولاء کی بیع جائز نہیں۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أعلام الموقعين: 339/4 ، الروضة الندية: 328/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1