جو اپنے مال سے کچھ وصیت کرنا چاہتا ہے، اس کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ موت اس کو آلے، جلد از جلد اسے لکھوا لے اور اہتمام کے ساتھ اس کی
توثیق اور گواہی کے کام نپٹا لے۔
اس وصیت کی دو اقسام ہیں:
پہلی قسم: واجب وصیت: اپنے ذمے واجب الادا دوسروں کے حقوق کا ذکر اور بیان، جیسے: قرض، ادھار، یا بیع کے معاملات، یا امانتیں یا پھر اس کے اپنے لوگوں سے واجب الوصول حقوق اور معاملات کی تفصیل۔ اس صورت میں، اپنے اموال کی حفاظت اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے، نیز موت کے بعد اپنے ورثا اور ان حقوق کے مالکان کے درمیان کسی بھی نزاع کے پیدا ہونے کے خدشے کو مٹانے کی خاطر، وصیت کرنا واجب ہے، کیونکہ آپ کا فرمان ہے:
”کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس کے متعلق وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ دو راتیں بھی ایسے گزارے کہ وہ اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2738 صحيح مسلم 1627]
دوسری قسم: مستحب وصیت: محض اپنی خوشی سے نیکی کے لیے کی جاتی ہے، جس طرح کوئی انسان وصیت کر جاتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کے تیسرے حصے سے یا اس سے کم، اس کے کسی غیر وارث رشتے دار کو دے دیا جائے یانیکی کے کاموں میں، فقراء، مساکین پر صدقہ کرنے کے لیے، یا نیک مصارف میں، مساجد کی تعمیر میں اور دیگر فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کر دیا جائے۔
اس کی دلیل یہ حدیث ہے جو حضرت خالد بن عبید سلمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمھاری وفات کے موقع پر تمہارے مال سے تیسرا حصہ دیا ہے، جو تمہارے اعمال میں اضافے کا سبب ہے۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 2709]
ہیثمی ’’مجمع الزوائد“ میں ذکر کرتے ہیں کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ امام احمد نے بھی مسند میں حضرت ابو درداء سے اس جیسی حدیث نقل کی ہے۔ صحیحین میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی حدیث میں بھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، آپ اس زمین پر فوت ہونا ناپسند کرتے تھے، جس سے ہجرت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: نصف؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میںنے کہا: تیسرا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تیسرے حصے کی کر لو، لیکن تیسرا حصہ بھی زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑو تو یہ انہیں فقیر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1295 صحيح مسلم 1628/5]
بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں: میں نے کہا: میں وصیت کرنا چاہتا ہوں، جبکہ میری صرف ایک بیٹی ہے۔ میں نے کہا: میں نصف کی وصیت کر جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف زیادہ ہے، میں نے کہا: پھر تیسرا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیسرا حصہ مناسب ہے پھر بھی زیادہ ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2744]
وہ کہتے ہیں: پھر لوگوں نے تیسرے حصے کی وصیت کی اور آپ نے اسے ان کے لیے جائز قرار دیا۔
[اللجنة الدائمة: 18958]