حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مجاہدین کی واپسی سے متعلق فیصلے کا تحقیقی جائزہ اور اس کی اسنادی حیثیت
ماخوذ : فتاوی علمیہ – جلد 1: اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 623

بیوی اور شوہر کی مدتِ جدائی: ایک مشہور واقعہ کی تحقیق

سوال:

بیوی اور شوہر کے درمیان جدائی کی مدت کتنی ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے ایک مشہور واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں ایک مرتبہ ایک گھر کے پاس سے گزرے تو ایک عورت اشعار پڑھ رہی تھی جن کا مفہوم یہ تھا کہ: "آج میرے خاوند جہاد پر گئے ہوئے ہیں، اگر مجھے شریعت کا خوف نہ ہوتا تو آج میرے بستر پر کوئی مرد ہوتا۔”
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا تو اپنی بیٹی کے پاس گئے اور پوچھا:
"اے میری بیٹی! ایک عورت اپنے خاوند کے بغیر کتنا عرصہ گزار سکتی ہے؟”
بیٹی نے جواب دیا: "دو ماہ یا زیادہ سے زیادہ چار ماہ۔”
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ کوئی بھی مجاہد چار ماہ سے زائد گھر سے باہر نہ رہے، بلکہ چھٹی لے کر گھر واپس آئے اور اپنی زوجہ کے حقوق ادا کرے۔

اب سوال یہ ہے کہ:

➊ کیا یہ واقعہ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے؟
➋ اگر یہ واقعہ درست ہو، تو تبلیغی جماعت یا مجاہدین جو سال یا دو سال کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں، کیا وہ ان حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتے؟
➌ براہ کرم واقعہ کا حوالہ بھی فراہم کریں کہ یہ کہاں مذکور ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس واقعے کے مفہوم کا اثر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "تفسیر ابن کثیر” میں "سورۃ البقرہ: 227” کی تفسیر کے تحت، موطا امام مالک کے حوالہ سے نقل کیا ہے:

(تفسیر ابن کثیر 1/541، سورۃ البقرۃ :227)

لیکن اس اثر کا مفصل جائزہ لیا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:

➊ موطا امام مالک میں عدمِ موجودگی:

یہ اثر موطا امام مالک میں موجود نہیں ہے۔ اگرچہ ابن کثیر نے یہ نسبت کی ہے، لیکن اصل کتب میں یہ اثر موطا میں موجود نہیں ملتا۔

➋ سند میں انقطاع:

یہ اثر عمرو بن دینار عن عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے نقل کیا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمرو بن دینار نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
اس کی وضاحت تحفۃ الأشراف (8/94، حدیث: 20613) میں یوں کی گئی ہے:

"عمرو بن دینار المکی الأثْرَم عن عمر، ولم یدرکہ”

لہٰذا، سند منقطع (منقطع السند) ہے، اور اس وجہ سے ضعیف شمار ہوتی ہے۔

➌ بیہقی کی روایت:

بیہقی نے السنن الکبریٰ میں اس واقعہ کی ہم معنی روایت نقل کی ہے، جس کا متن یوں ہے:

"حدثني مالك عن عبدالله بن دينار عن ابن عمر رضي الله عنه قال: خرج عمر بن الخطاب رضي الله عنه من الليل فسمع امراة تقول…..”
(السنن الکبریٰ 9/29)

لیکن اس روایت کی سند میں راوی اسماعیل بن ابی اویس ہے، جس کے بارے میں محدثین نے ضعف کی تصریح کی ہے۔ اس بنا پر یہ روایت بھی ضعیف شمار کی جاتی ہے۔

➍ ابن کثیر میں ضعیف شاہد:

تفسیر ابن کثیر 1/541 میں اس مفہوم کا ایک ضعیف شاہد بھی بیان کیا گیا ہے۔

➎ دیگر مصادر میں موجود روایات:

اس مفہوم کی دوسری سندیں مصنف عبدالرزاق اور المحلی لابن حزم وغیرہ میں بھی موجود ہیں:

  • مصنف عبدالرزاق (1/150،151، حدیث: 12593،12594)
  • المحلی لابن حزم (10/40، مسئلہ: 1886)

لیکن یہ تمام سندیں بھی ضعیف ہیں۔

نتیجہ:

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں:

  • یہ واقعہ صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں۔
  • یہ واقعہ ضعیف روایات پر مبنی ہے۔
  • لہٰذا اسے شریعت کے قطعی اصول کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1