حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قیامت کے دن اللہ سے مصافحہ کی روایت کی تحقیق
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ129

سوال:

کیا امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب تاریخ الخلفاء میں مذکور روایت، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قیامت کے دن اللہ سے مصافحہ کریں گے، سلام عرض کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کرے گا، معتبر ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کی ذکر کردہ روایت کی تفصیلی تحقیق درج ذیل ہے:

روایت کا حوالہ:

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تاریخ الخلفاء میں نقل کرتے ہیں:

"وأخرج ابن ماجة والحاكم عن أبي بن كعب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‘أول من يصافحه الحق عمر وأول من يسلم عليه وأول من يأخذ بيده فيدخل الجنة'”
(تاریخ الخلفاء، ص: 117)

ترجمہ:
ابن ماجہ (104) اور حاکم (3/84، حدیث: 4489) نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن اللہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصافحہ کرے گا، سب سے پہلے ان پر سلام کرے گا اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کرے گا۔”

تحقیقِ حدیث:

یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
(انوار الصحیفہ، ص: 265)

ابن ماجہ کی سند کا راوی:

ابن ماجہ کی سند میں ایک راوی دادو بن عطاء ہے، جس کے بارے میں جلیل القدر محدثین کی آراء درج ذیل ہیں:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ: "ضعیف”
(تقریب التہذیب: 1801)

امام بخاری رحمہ اللہ: "منکر الحدیث”
(کتاب الضعفاء: 110، تحفۃ الأقویا، ص: 39)

احمد بن ابی بکر البوصیری (متوفی 840ھ):
"اتفقوا على ضعفه”
یعنی محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کی رائے:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"هذ الحديث منكر جدا وما ابعد من ان يكون موضوعا”
"یہ حدیث سخت منکر ہے، بلکہ میرے نزدیک اس کا موضوع (من گھڑت) ہونا بعید نہیں۔”
(جامع المسانید 1/72، حدیث: 41، شرح سنن ابن ماجہ للسندھی 1/52)

مستدرک الحاکم کی سند کا ضعف:

مستدرک الحاکم کی سند میں فضل بن جبیر الوراق نامی راوی ہے، جس کی توثیق معلوم نہیں۔
حافظ العقیلی رحمہ اللہ نے اسے "کتاب الضعفاء” میں ذکر کیا ہے۔
(3/444، ترجمہ: 1492)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر شدید جرح کی ہے۔

دیگر کتب میں بھی اس روایت کی کمزوری:

الکامل لابن عدی (7/2528)
تاریخ دمشق لابن عساکر (47/140)
العلل المتناہیۃ لابن الجوزی (1/192، حدیث: 309)

ان کتب میں بھی اس روایت کے ضعیف یا من گھڑت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

موضوع (من گھڑت) شاہد:

ایک اور روایت میں، جو اس روایت کی تائید میں پیش کی جاتی ہے، قاضی وہب بن وہب ابوالبختری (کذاب) اور محمد بن ابی حمید الانصاری (ضعیف) شامل ہیں، جس سے اس روایت کی مزید کمزوری واضح ہو جاتی ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا حکم:

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "منکر جدا” قرار دیا ہے۔
(السلسلہ الضعیفہ 5/506، حدیث: 2485)

نتیجہ:

◉ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف اور ناقابلِ قبول ہے۔
"أول من يصافحه الحق …..الخ” کی تمام سندیں ضعیف اور مردود ہیں۔

تنبیہ:

مجھے بزار کا حوالہ نہیں ملا۔ واللہ اعلم۔
(الحدیث: 10)

نتیجہ اور خلاصہ:

◉ یہ روایت مختلف سندوں سے آئی ہے، لیکن تمام سندیں ضعیف ہیں۔
◉ محدثین نے اسے منکر اور ضعیف قرار دیا ہے، حتیٰ کہ بعض نے موضوع (من گھڑت) ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔
◉ اس روایت میں موجود راویوں پر محدثین نے سخت جرح کی ہے، جیسے دادو بن عطاء، فضل بن جبیر، اور قاضی وہب بن وہب وغیرہ۔
◉ اس لیے یہ روایت دین میں حجت نہیں بن سکتی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1