مجاہد شوہر کی عدم موجودگی میں بیوی کے اشعار: روایت کی حقیقت اور شرعی پہلو
سوال:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا ایک مشہور واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی گھر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک عورت کو اشعار پڑھتے سنا۔ عورت نے کہا:
"آج میرے خاوند جہاد پر گئے ہوئے ہیں، اگر مجھے شریعت کا خوف نہ ہوتا تو آج میرے بستر پر کوئی غیر مرد ہوتا۔”
یہ اشعار سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے پوچھا:
"ایک عورت اپنے شوہر کے بغیر کتنا عرصہ گزار سکتی ہے؟”
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
"دو ماہ یا زیادہ سے زیادہ چار ماہ۔”
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قانون نافذ کر دیا کہ:
"کوئی مجاہد مرد چار ماہ سے زیادہ گھر سے باہر نہ رہے بلکہ وہ چھٹی لے کر گھر آئے اور اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری کرے۔”
سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ واقعہ صحیح اسناد سے ثابت ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو آج کے دور میں بہت سے مجاہدین یا تبلیغی جماعت کے افراد جو سال یا دو سال کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں، کیا وہ ان حقوق کو پورا نہیں کرتے؟
اس واقعہ کا حوالہ بھی درکار ہے کہ یہ کہاں مذکور ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کی تفصیل اور اسناد کی تحقیق:
◈ اس واقعہ کا اثر حافظ ابن کثیر نے موطا امام مالک سے عمرو بن دینار عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سند سے نقل کیا ہے:
(تفسیر ابن کثیر، 1/541، سورہ البقرہ: 227)
◈ لیکن موطا امام مالک میں یہ اثر نہیں پایا گیا۔ مزید یہ کہ عمرو بن دینار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا، یعنی وہ ان کے ہم عصر نہیں تھے۔
(دیکھئے: تحفۃ الاشراف، 8/94، حدیث 10613، الفظہ: "عمرو بن دینار المکی الأثرم عن عمر…… ولم یدرکہ”)
بیہقی کی روایت:
◈ بیہقی نے السنن الکبریٰ میں ایک ہم معنی روایت ذکر کی ہے:
"اسماعیل بن ابی اویس، مالک، عبداللہ بن دینار، ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ: عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک رات باہر نکلے تو ایک عورت کو کہتے سنا…”
اس روایت میں عورت کی بات کچھ یوں بیان کی گئی:
"رات لمبی ہوگئی اور اس کا ایک پہلو کالا ہوگیا۔ اس بات نے میرے دل کو رلا دیا کہ میرا حبیب نہیں جس سے میں کھیلوں۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
"عورت اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں کتنا صبر کرسکتی ہے؟”
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
"چار یا چھ مہینے۔”
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں اپنے فوجیوں کو اس سے زیادہ وقت کے لیے باہر نہیں رکھوں گا۔”
(السنن الکبریٰ، 9/29)
روایت کی دیگر کتب میں موجودگی:
◈ یہ مفہوم تفسیر ابن کثیر (1/541) میں بھی مذکور ہے۔
◈ اس کے علاوہ:
❀ مصنف عبدالرزاق (1/150، 151، حدیث 12593، 12594)
❀ المحلی لابن حزم (10/40، مسئلہ: 886)
میں بھی اسی مفہوم کی روایات موجود ہیں، مگر ان کی ہر ایک سند انفرادی طور پر ضعیف ہے۔
راجح تحقیق:
◈ تمام موجود اسناد انفرادی طور پر ضعیف ہیں، اس لیے راجح تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ثابت نہیں ہے۔
واللہ اعلم
تنبیہ:
◈ اسماعیل بن ابی اویس کے بارے میں جمہور محدثین نے توثیق کی ہے:
(شرح صحیح مسلم للنووی، 2/14، تحت حدیث 2094)
◈ اس بناء پر بیہقی کی السنن الکبریٰ میں مذکور روایت حسن کے درجے کی ہے۔
نتیجہ:
◈ بیہقی کی حسن روایت کی روشنی میں مفہوم یہ نکلتا ہے کہ:
> حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عورت کی اشعار کی کیفیت کو دیکھ کر اس کی ازدواجی ضروریات کو محسوس کیا اور پوچھ گچھ کے بعد یہ اصول طے کیا کہ مجاہد شوہر چار یا چھ ماہ سے زیادہ گھر سے باہر نہ رہیں۔
◈ آج کے دور میں جو افراد تبلیغ یا دیگر دینی کاموں کے لیے طویل مدتی سفر اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ واقعہ نصیحت ہے کہ وہ ازدواجی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہ کریں اور بیوی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھیں۔