بدعت کے جواز پر بدعتی حضرات کا ایک مشہور استدلال سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس قول سے لیا جاتا ہے: "نعمت البدعة هذه”۔ ان کے نزدیک یہ جملہ بدعت کی تقسیم (حسنہ اور سیئہ) پر دلیل ہے۔ مگر حقیقت میں یہ استدلال علمی لحاظ سے نہایت کمزور ہے اور قرآن و سنت اور فہمِ سلف کی روشنی میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس مضمون میں ہم اس دلیل کو نقل کر کے تین مختلف پہلوؤں سے اس کا جواب دیں گے۔
بدعتی حضرات کی دلیل
بدعتی حضرات کہتے ہیں کہ:
قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه: «نِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ»
(رواه البخاري، كتاب صلاة التراويح، حديث: 2010)
فهذا يدل على تقسيم البدعة إلى حسنة ممدوحة، وسيئة مردودة!
📌 ترجمہ:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یہ اچھی بدعت ہے” (صحیح بخاری)۔
اس سے معلوم ہوا کہ بدعت دو قسم کی ہے: ایک نیک و پسندیدہ بدعت، اور دوسری بری و مردود بدعت۔
اس شبہ کی مدلل وضاحت
➊ دلیلِ نبویﷺ کے مقابلے میں کسی کا قول حجت نہیں
اگر بالفرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے بدعت کے جواز پر استدلال درست بھی مان لیا جائے (حالانکہ یہ درست نہیں)، تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مقدم ہوگا:
«كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
(سنن النسائي، كتاب صلاة العيدين، حديث: 1578؛ صحيح مسلم، حديث: 867)
📌 ترجمہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
یہ اصولی قاعدہ ہے کہ کسی صحابی یا امام کا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مقابلے میں حجت نہیں۔
اسی لئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول: قال رسول الله، وتقولون: قال أبو بكر وعمر”
(رواه أحمد في المسند: 2669، والبيهقي في السنن الكبرى: 6/202)
📌 ترجمہ:
"قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں، میں کہتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو ابو بکر و عمر نے کہا!”
➋ تراویح بدعت شرعی نہیں بلکہ سنت ہے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب انہوں نے رمضان میں لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح میں جمع کیا۔ حالانکہ تراویح بدعت نہیں، بلکہ سنت ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ابتدائی راتوں میں باجماعت تراویح پڑھائی۔
فرمایا:
«من قام مع الإمام حتى ينصرف كُتب له قيام ليلة»
(سنن الترمذي، كتاب الصوم، حديث: 806؛ وصححه الألباني)
📌 ترجمہ:
"جو شخص امام کے ساتھ تراویح پڑھے یہاں تک کہ امام سلام پھیر دے تو اس کے لئے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔”
اسی بنیاد پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (مسائل الإمام أحمد رواية عبد الله: 1/422) اور دیگر ائمہ نے جماعت کے ساتھ تراویح کو افضل قرار دیا۔
نیز روایت میں ہے کہ سیدنا عبد الرحمن بن عبد القاري کہتے ہیں:
"خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان فإذا الناس أوزاعاً متفرقون… فجمعهم على أبي بن كعب…”
(صحيح البخاري، كتاب صلاة التراويح، حديث: 2010؛ الموطأ لمالك: 1/114)
📌 ترجمہ:
"میں سیدنا عمر کے ساتھ رمضان کی ایک رات نکلا تو لوگ مختلف جماعتوں میں متفرق تھے۔ عمر نے کہا: اگر میں ان سب کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو بہتر ہوگا۔ پھر انہیں ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔”
اسی موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "نعمت البدعة هذه”۔
لہذا یہ بدعت شرعی نہیں، بلکہ سنتِ نبوی کی ہی احیاء تھی۔
➌ بدعت لغوی اور بدعت شرعی میں فرق
"بدعت” کا لفظ شریعت میں ہمیشہ مذموم کے لئے آتا ہے، لیکن لغت میں ہر نیا کام بدعت کہلاتا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔
اسی فرق کو ائمہ و محدثین نے واضح کیا:
-
ابن کثیر رحمہ اللہ:
"البدعة على قسمين: شرعية… ولغوية؛ كقول عمر: نعمت البدعة هذه.”
(تفسير ابن كثير، 1/271)
📌 "بدعت دو قسم کی ہے: شرعی اور لغوی۔ عمر رضی اللہ عنہ کا قول بدعت لغوی پر محمول ہے۔”
-
ابن رجب الحنبلي رحمہ اللہ:
"وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلك في البدع اللغوية لا الشرعية.”
(جامع العلوم والحكم، 2/128)
📌 "سلف کے کلام میں بعض بدعات کے استحسان کا ذکر صرف لغوی بدعت کے بارے میں ہے، شرعی بدعت کے بارے میں نہیں۔”
-
شیخ الاسلام ابن تیمية رحمہ اللہ:
"وأما قول عمر: نعمت البدعة هذه… فلا تصلح معارضة الحديث بقول الصاحب.”
(مجموع الفتاوى، 22/234)
📌 "عمر رضی اللہ عنہ کا قول ‘نعمت البدعة’ حدیث کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتا۔”
کسی لفظ کے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں فرق کی چند مثالیں
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض الفاظ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی آیت یا حدیث کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے یہ فرق سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
➊ حدیث:
عربی میں حدیث کا لغوی معنی ہے "بات” یا "کلام” — یعنی کوئی بھی گفتگو، خواہ اچھی ہو یا بری۔
لیکن جب یہ لفظ اصطلاحِ شرع میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد ہوتی ہے
رسول اللہ ﷺ کا قول، فعل یا تقریر (یعنی وہ عمل جو آپ ﷺ کے سامنے ہوا اور آپ ﷺ نے اس پر نکیر نہ فرمائی بلکہ خاموشی اختیار کی)۔
پس لغوی اعتبار سے ہر بات "حدیث” کہلاتی ہے، مگر اصطلاحی معنی میں "حدیث” صرف نبی ﷺ کی طرف منسوب قول یا عمل کے لیے مخصوص ہے۔
➋ بدعت:
اسی طرح بدعت کا لغوی معنی ہے نئی چیز — چاہے وہ اچھی ہو یا بری۔
اسی لغوی معنی میں قرآن میں فرمایا گیا:
{بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}
"وہ (اللہ) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔”
(یعنی جس نے انہیں پہلی بار بغیر کسی مثال کے پیدا کیا۔)
لہٰذا لغوی اعتبار سے ہر نئی چیز — جیسے ہوائی جہاز، ٹرین، اسپیکر یا موبائل — "بدعت” کہلا سکتی ہے کیونکہ وہ پہلے نہیں تھی۔
لیکن جب بدعت کا لفظ اصطلاحی طور پر دینی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہ کام ہے
"جو دین میں نیا ایجاد کیا گیا ہو، جس کی بنیاد کتاب و سنت میں نہ ہو، اور جو خیرالقرون (یعنی نبی ﷺ، صحابہ، تابعین) کے دور میں رائج نہ تھا۔”
یہ وہی زمانہ ہے جس کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا:
((خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ))
"سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا۔”
(بخاری و مسلم)
ان ادوار میں بھی لوگ اپنے عزیزوں کے انتقال پر غمگین ہوتے، ان کے لیے دعائیں کرتے، قرآن موجود تھا، مگر نہ انہوں نے اجتماعی قرآن خوانی کی محفلیں منعقد کیں، نہ پکی قبریں بنائیں، نہ ان پر مزار تعمیر کیے۔
یہ سب بعد میں پیدا ہونے والے کام ہیں، جنہیں اصطلاحی لحاظ سے "بدعت” کہا جاتا ہے — یعنی وہ کام جو دین کے نام پر ایجاد کیے گئے مگر جن کی کوئی اصل کتاب و سنت میں موجود نہیں۔
لہٰذا لغوی اعتبار سے "بدعت” ہر نئی چیز کے لیے عام ہے، لیکن اصطلاحی معنی میں یہ وہ نیا دینی عمل ہے جو نبی ﷺ، صحابہؓ اور تابعین کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ یہی بدعت مذموم اور مردود ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(صحیح مسلم)
خلاصہ
بدعتی حضرات کا یہ استدلال کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے بدعت حسنہ ثابت ہے، حقیقت میں مغالطہ ہے۔
-
اول: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان "کل بدعة ضلالة” سب پر حاکم ہے۔
-
دوم: تراویح بدعت نہیں، بلکہ سنت ہے، اور سیدنا عمرؓ نے صرف اس کے اجتماعی اہتمام کو "بدعت” کہا۔
-
سوم: سیدنا عمرؓ کا لفظ "بدعة” یہاں لغوی معنوں میں ہے، شرعی معنوں میں نہیں۔
لہٰذا بدعت کو حسنہ و سیئہ میں تقسیم کرنا شریعت کے نصوص کے خلاف ہے۔ دین مکمل ہے اور ہر نئی بدعت مردود ہے:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ﴾
(سورة المائدة: 3)
📌 ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”