حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے سورج کا لوٹایا جانا: حقیقت کیا ہے؟
سوال:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر فوت ہوگئی تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے سورج کو واپس لوٹا دیا؟ اس واقعے کی کیا حقیقت ہے؟
(محمد انور، راولپنڈی)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایت کے مطابق، فضیل بن مرزوق (جو حسن الحدیث اور ثقہ الجمہور ہیں) نے یہ واقعہ ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب (جو فاطمہ بنت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے ہیں اور خود مجہول الحال ہیں) کے ذریعے اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک نقل کیا۔ روایت میں بیان کیا گیا ہے:
واقعہ:
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی۔
◈ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں تھا۔
◈ اس دوران حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز عصر ادا نہ کر سکے حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"اے علی! کیا تم نے نماز پڑھی؟”
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: "نہیں!”
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ
ترجمہ:
"اے اللہ! وہ تیری اطاعت اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا، لہٰذا اس کے لیے سورج کو واپس لوٹا دے۔”
اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا، پھر (دوبارہ) طلوع ہوتے بھی دیکھا۔
مشکل الآثار للطحاوی (جدید طباعت 3/92، حدیث 1067؛ قدیم طباعت 2/8)
المعجم الکبیر للطبرانی (24/147–152، حدیث 390)
الاباطیل والمناکیر للجورقانی (1/158)
الموضوعات لابن الجوزی (1/355)
روایت کی سند پر تحقیق:
یہ روایت ضعیف ہے۔ وجوہات درج ذیل ہیں:
◈ ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صریح توثیق تدوین حدیث کے دور میں صرف حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔
◈ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ توثیق میں متساہل مانے جاتے ہیں، اس لیے ابراہیم مجہول الحال ہیں۔
◈ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔
دیوان الضعفاء والمتروکین 1/46، ترجمہ: 169
◈ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
➤ فضیل بن مرزوق کا ابراہیم بن حسن سے سماع ثابت نہیں۔
➤ ابراہیم کا اپنی والدہ فاطمہ بنت حسین سے اور فاطمہ کا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں۔
منہاج السنہ 4/190
ایک اور روایت:
محمد بن موسیٰ الفطری المدنی رحمۃ اللہ علیہ (ثقہ و صدوق) نے روایت نقل کی:
عون بن محمد بن امه ام جعفر عن اسماء بنت عميس رضي الله عنها
واقعے کی تفصیل:
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام صبہاء میں نمازِ ظہر ادا کی۔
◈ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی کام کے لیے بھیجا۔
◈ جب وہ واپس آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کر چکے تھے۔
◈ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں سر رکھا، اور وہ سورج غروب ہونے تک ساکت رہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی:
اللَّهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّكَ ، فَرُدَّ عَلَيْهِ شَرْقَهَا
ترجمہ:
"اے اللہ! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لیے روکے رکھا، لہٰذا اس کے لیے سورج کو دوبارہ طلوع کر دے۔”
اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
◈ سورج طلوع ہوا حتی کہ پہاڑوں اور زمین پر دھوپ پھیل گئی۔
◈ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا، عصر کی نماز پڑھی، پھر سورج غروب ہوگیا۔
یہ واقعہ غزوہ خیبر کے دوران صبہاء نامی مقام پر پیش آیا۔
شرح مشکل الآثار (3/94، حدیث 1068؛ دوسرا نسخہ 2/9)
المعجم الکبیر للطبرانی (24/145، حدیث 382)
اس روایت کی سند پر تحقیق:
یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات:
◈ عون بن محمد اور ان کی والدہ اُم جعفر (اُم عون بنت محمد بن جعفر) دونوں مجہول الحال ہیں۔
◈ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق:
➤ عون اور اس کی والدہ کی عدالت اور حفظ معلوم نہیں۔
منہاج السنہ ج4، ص189
➤ اُم جعفر کا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع بھی نامعلوم ہے۔
ایضاً، ص189
تنبیہ:
بعض روایات میں فاطمہ بنت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع کی تصریح بھی آئی ہے، لیکن ان میں درج ذیل مدلس راوی موجود ہیں:
◈ مروان بن معاویہ الفزاری
◈ شریک بن عبداللہ القاضی
یہ دونوں عن کہہ کر روایت کرتے ہیں، اس وجہ سے ایسی روایات پر کلام ہے۔
خلاصہ تحقیق:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے سورج کے واپس آنے والی روایت دونوں اسانید کے ساتھ ضعیف اور مردود ہے۔
◈ ابن عقدہ رافضی اور ابن مردویہ کی روایات بھی ضعیف ہیں۔
◈ ابن مردویہ کی روایت میں یزید بن عبدالملک النوفلی ضعیف راوی ہے۔
منہاج السنہ 4/193، طریق یحییٰ بن یزید بن عبدالملک النوفلی عن ابیہ عن داؤد بن فراھیج عن عمارہ بن فروعن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یزید النوفلی کی ضعف کی تفصیل:
تقریب التہذیب (ترجمہ: 7751)
میزان الاعتدال (4/414، ترجمہ: 9651، یحییٰ بن یزید بن عبدالملک)
مزید تحقیق کے لیے مراجع:
◈ منہاج السنہ (4/185–195)
◈ وما علینا الا البلاغ (14 جنوری 2010ء)
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب