على رضی اللہ عنہ خلق الہی پر اللہ کی حجت ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھا تھا۔ اچانک حضرت علی آگئے۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ علی بن ابی طالب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارشاد فرمایا۔ اے انس رضی اللہ عنہ یہ خلق الہی پر اللہ کی حجت ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میری امت پر قیامت کے دن یہ حجت ہ گا۔ [ميزان الاعتدال للذهبي 446/6۔ و اخرجه ابن عدي فى الكامل ترجمه مطر بن ميمون]
سب سے بڑی حیرت تو اس پر ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ 93ھ تک حیات رہے اور مختلف امویوں کی بیعت کی۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ یہ ان کی جانب سے اڑائی ہوئی ایک گپ ہے۔
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ روایت باطل ہے۔ اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مطر بن میمون المحماربی الاسکاف نقل کر رہا ہے جسے مطر بن ابی مطر کہا جاتا ہے۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ رازی، بخاری اور نسائی کا بیان ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ [ميزان الاعتدال : 445/6]
دارقطنی لکھتے ہیں متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص 165 للدارقطني]
بخاری لکہتے ہیں مطر بن میمون نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور عکرمہ سے روایات سنی ہیں۔ اس سے یونس بن بکیر روایات لیتا ہے منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء الصغير : 110]
اس مطر نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نام سے یہ روایت بھی وضع کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۲نے ارشاد فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی جانب دیکھنا عبادت ہے۔
اور یہ روایت کہ میرا بھائی اور میرا وزیر، میرے گھر والوں میں میرا خلیفہ اور جن لوگوں کو میں چھوڑ کر مروں گا میں سب سے بہتر علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ذہبی کا بیان ہے کہ ان سہ روایات کا وضاع مطر بن میمون ہے۔ [ذكره ابن حبان فى المجروحين 5/3 العقيلي فى الضعفاء 252/2 و ابن عراق فى تنزية الشريعة 353/1 و ابن جوزي فى الموضوعات 347/1 ميزان الاعتدال : 446/1]
ان روایات کے علاوہ ایک روایت ابن عدی اور ذہبی نے یہ بھی نقل کی ہے۔ کہ علی میرا بھائی ہے میرا ساتھی، میرے چچا کا بیٹا، اور میں اپنے بعد جن لوگوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سب سے بہتر ہے جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرا وعدہ پورا کرے گا۔ [ابن جوزي فى الموضوعات 378/1
ذكره الهندي فى الكنز 32907]
راوی کا بیان ہے کہ میں نے مطر سے دریافت کیا تم انس رضی اللہ عنہ سے کہاں ملے تھے۔ اس نے جواب دیا خریبہ میں
(بصرہ میں ایک جگہ ہے)۔
عبید اللہ بن موسی :
مطر سے یہ تمام کہانیاں نقل کرنے والا عبید اللہ بن موسی العسبی الکوفی ہے۔ اس سے تمام اصحاب صحاح نے روایت کی ہے۔ لیکن ماشاء اللہ بہت کٹر قسم کے رافضی تھے۔ ان کا حال پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ عبید اللہ بن موسی سے یہ رام کہانی نقل کرنے والے علی بن مثنی علی بن سہل اور عبد الرحمن بن سراج ہیں، اور تینوں کے الفاظ جدا گانہ ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عبد اللہ یا مطر بن ابی مطر نے کبھی کچھ کہا اور کبھی کچھ اور چونکہ قاعدہ یہ ہے کہ دودغ گورا حافظ نبا شد لہٰذا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عبید اللہ بھی صورت حال کا اندازہ کر کے الفاظ گھٹاتا بڑھا رہتا۔