الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کا حوالہ
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں بیان کرتے ہیں:
"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ، وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ”
(صحیح بخاری: کتاب الغسل، باب الغسل بالصاع ونحوہ، حدیث 251)
حدیث کا مفہوم
اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ:
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی اور حضرت ابو سلمہ ان کے پاس آئے۔
◈ ان کے رضاعی بھائی نے نبی کریم ﷺ کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صاع (تقریباً ڈھائی کلو) پانی کا ایک برتن منگوایا اور غسل کیا۔
◈ انہوں نے اپنے سر پر پانی بہایا، اور ان کے درمیان پردہ موجود تھا۔
اس حدیث سے متعلق چند اہم نکات
➊ غسل جنابت اور بال کھولنے کا مسئلہ
صحابہ کرام میں اختلاف تھا کہ غسل جنابت کے دوران عورت کو اپنے بال کھولنے چاہئیں یا نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا مؤقف تھا کہ عورتوں کو غسل کے دوران اپنے بال کھولنے چاہئیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
"يَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو هَذَا يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ؟”
(صحیح مسلم: حدیث 747)
اس کا مطلب یہ ہے کہ غسل جنابت میں بال کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ سر پر پانی بہا لینا کافی ہے۔
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عملی جواب
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمل سے یہ مسئلہ واضح کیا کہ عورت کے لیے غسل جنابت میں بال کھولنا ضروری نہیں، بلکہ تین بار پانی بہا لینا کافی ہے۔
➌ حدیث کی وضاحت محدثین کی روشنی میں
مشہور محدث ابو عوانہ الاسفرائنی نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
"رسول اللہ ﷺ کے غسل والے برتنوں کا بیان اور غسل جنابت میں باقی جسم کو چھوڑ کر صرف سر دھونے کا بیان”
(صحیح ابو عوانہ، 1/294)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف سر دھو کر دکھایا، پورے جسم کا غسل نہیں کیا۔
➍ حدیث کے الفاظ "فَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا ثَلَاثًا”
صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"فأفرغت على رأسها ثلاثاً”
(صحیح مسلم: حدیث 320)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہایا، لیکن باقی جسم کا غسل ذکر نہیں کیا گیا۔
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور شاگردوں کے درمیان پردہ تھا
صحیح بخاری اور مسلم کی روایات میں یہ الفاظ موجود ہیں:
"وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ”
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شاگردوں کے درمیان موٹا پردہ تھا، جس کے پیچھے نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر غسل فرما رہے تھے تو:
"وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ”
(موطا امام مالک: حدیث 356، صحیح بخاری: حدیث 357، صحیح مسلم: حدیث 719)
یہ حدیث پردے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی پردے کے پیچھے غسل کیا تھا۔
➏ حاضر ہونے والے افراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محرم تھے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی کے بارے میں دو اقوال ہیں:
◈ بعض کے نزدیک یہ عبداللہ بن یزید البصری تھے۔
◈ بعض کے نزدیک یہ کثیر بن عبید الکوفی تھے۔
(فتح الباری، 1/365)
جبکہ ابو سلمہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف کے بیٹے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے۔
➐ فقہاء کی وضاحت
دیوبندی عالم عبدالرحمان لکھتے ہیں:
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے محرم افراد کے سامنے پردہ ڈال کر غسل کیا اور ان کے لیے صرف سر اور اوپری بدن ظاہر ہوا، جو محرم کے لیے جائز ہے، جبکہ باقی جسم پردے میں تھا۔”
(فضل الباری، 2/428)
بریلوی عالم غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
"منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ اجنبی مرد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے غسل کے بارے میں سوال کرتے تھے اور وہ غسل کرکے دکھاتی تھیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افراد اجنبی نہیں تھے بلکہ محرم تھے، اور حضرت عائشہ نے پردے کی اوٹ میں غسل کیا تھا۔”
(شرح صحیح مسلم، 1/1019، 1029)
خلاصہ
◈ یہ حدیث غسل جنابت میں پانی کی مقدار اور طریقہ کار کے بارے میں ہے۔
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف سر دھو کر دکھایا، پورے جسم کا غسل نہیں کیا۔