حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے متعلق دو حکایات کا تحقیقی جائزہ
سوال
حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا
کیا درج ذیل دو حکایات، جنہیں بعض مصنفین اپنی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں، کسی معتبر روایت سے ثابت ہیں:
حکایت نمبر (1): فرشتوں کا مٹی لینے کے لیے زمین پر آنا
یہ حکایت بیان کرتی ہے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو زمین سے مٹی لانے کے لیے بھیجا تاکہ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا جائے۔
◈ جب وہ فرشتہ زمین میں آیا، تو زمین بول اٹھی: "مجھے مت لے جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کریں گے اور ان کی اولاد گناہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالیں گے، اور مجھے اس سے تکلیف ہوگی۔”
◈ یوں تین فرشتے آئے اور سب کے سب خالی ہاتھ واپس چلے گئے۔
◈ آخرکار حضرت عزرائیل علیہ السلام آئے، اور چونکہ ان کے دل میں رحم کم تھا، اس لیے وہ مٹی لے گئے۔
اس حکایت کا ماخذ:
یہ قصہ مختلف تفسیری اور تاریخی کتابوں میں معمولی فرق و تفاوت کے ساتھ مطول شکل میں مذکور ہے:
➊ تفسير فتح العزيز للشاه عبدالعزيز الدهلوي (جلد 1، صفحہ 199)
➋ تفسير روح البيان
➌ تفسير خازن (جلد 1، صفحہ 49، عن وهب بن منبه التابعي)
➍ سعيد بن منصور
➎ ابن المنذر
➏ ابن ابي حاتم (عن ابي هريرة الصحابي، موقوفا عليه)
➐ ابن جرير
➑ كتاب الاسماء والصفات للبيهقي (صفحہ 261)
➒ ابن عساكر (عن ابن مسعود وعن ناس من الصحابة، موقوفا عليهم)
➓ أبو الشيخ (بسند صحيح، عن ابن زيد، مرفوعا)
تفسير درمنثور للسيوطي (جلد 1، صفحہ 115)
تفسير السدي (عن ابي مالك، عن ابي صالح، عن ابن عباس، عن مرة، عن ابن مسعود، وعن أناس من الصحابة، موقوفا عليهم)
محدثین کی رائے:
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر (جلد 1، صفحہ 99) میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:
فهذا الإسناد إلى هؤلاء الصحابة مشهور في تفسير السدي، ويقع فيه إسرائيليات كثيرة، فلعل بعضها مدرج، ليس من كلام الصحابة، أو أنهم أخذوه من بعض الكتب المتقدمة، والله أعلم
فتویٰ:
میرے نزدیک یہ حکایت اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ چونکہ قرآن اور صحیح احادیث اس کے متعلق تفصیل سے خاموش ہیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، اس لیے ہمارا مؤقف یہ ہے:
"فلانؤمن به ولا نکذبه”
حکایت نمبر (2): حضرت آدم علیہ السلام کی شادی
اس حکایت میں کہا گیا ہے کہ:
◈ حضرت آدم علیہ السلام کی شادی کے موقع پر اللہ تعالیٰ خطیب بنے، فرشتے گواہ بنے، اور ان دونوں کے درمیان عقد نکاح منعقد ہوا۔
اس حکایت کا ماخذ:
تفسير فتح العزيز (جلد 1، صفحہ 217):
حضرت آدم علیہ السلام دوبارہ محمد ﷺ وآلہ درود فرستا دندو فرشتگان گواہ شدند و عقد و نکاح درمیان ایں ہردو منعقد گشت
فتویٰ:
یہ حکایت بھی اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر کو ان اسرائیلیات سے محفوظ نہیں رکھا۔ ان حکایات سے:
◈ اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا،
◈ اور نہ ہی قرآن کی کوئی خدمت انجام پائی۔
نتیجہ:
دونوں حکایات اسرائیلی روایات پر مبنی ہیں۔ ان کا تعلق نہ قرآن مجید سے ہے، نہ کسی صحیح حدیث سے۔ لہٰذا:
"نہ ان کی تصدیق کی جائے گی، نہ تکذیب”
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب