حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے جنتی نوجوانوں کے سردار ہونے پر اشکالات اور ان کے جوابات
حدیث کا بیان:
سنن ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) جوانانِ اہل جنت کے سردار ہوں گے۔”
اس حدیث پر متعدد اشکالات پیش کیے گئے ہیں، جن کے تفصیلی جوابات درج ذیل ہیں:
اشکال 1: کیا حسن و حسین رضی اللہ عنہما اس وقت نوجوان تھے؟
جواب:
نہیں، وہ اُس وقت نوجوان نہیں تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً 5 سال جبکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً 8 سال تھی۔
اشکال 2: کیا وہ اپنے والد حضرت علی اور چچا جعفر طیار رضی اللہ عنہما کے بھی سردار ہوں گے؟
جواب:
حضرت علی رضی اللہ عنہ 63 سال کی عمر میں 40 ہجری میں شہید ہوئے۔ وہ جوانی میں فوت نہیں ہوئے۔ حدیث میں "جنتی نوجوانوں” کا ذکر ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہم جیسے بزرگوں کے بھی سردار ہوں گے۔
اپنی طرف سے ایسی بے بنیاد بات گھڑنا انتہائی مذموم عمل ہے، جس کا ارتکاب صرف کذابین اور منکرینِ حدیث کرتے ہیں جیسے کہ حبیب الرحمن کاندہلوی اور عزیز احمد صدیقی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
اشکال 3: کیا حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما انبیاء کے بھی سردار ہوں گے؟
جواب:
ایسا کہنا بالکل باطل، غلط اور مردود ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کو کسی بھی صورت میں کسی امتی کے ماتحت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اشکال 4: اگر جنت میں سرداری ہے تو ایک گروہ کا ایک ہی سردار ہوتا ہے، تو دونوں کیسے سردار ہوں گے؟
جواب:
جنت میں دنیا جیسی سرداری نہیں ہے۔ یہ ایک اعزازی منصب ہے۔ جنت میں ہر ایک کو مکمل اختیار اور مرضی حاصل ہوگی۔
سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے:
"ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) جنت میں تمام بڑی عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، سوائے انبیاء و رسل کے۔”
(سنن ابن ماجہ: 100، و سندہ حسن، و صححہ ابن حبان، الموارد: 2192)
لہٰذا حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا جنتی نوجوانوں کے سردار ہونے کا مطلب اعزازی درجہ ہے، جس میں کوئی تناقض نہیں۔
اشکال 5: اسلام میں شخصیت پرستی نہیں، تقویٰ کی بنیاد پر فضیلت ہے، تو بدر کے مجاہدین سردار کیوں نہ بنے؟
جواب:
یہ سوال باطل ہے کیونکہ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، نہ کہ انسانی عقلی موشگافیوں پر۔
جو لوگ صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں، ان کی باتوں کی حیثیت گدھے کے ہنہنانے سے زیادہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو جنتی نوجوانوں کا سردار قرار دیا ہے، انکار کرنا گویا حدیث کا انکار ہے۔
کسی کو "سردار بنانا چاہئے تھا” جیسی باتوں میں اللہ تعالیٰ کو کسی کا پابند قرار دینا منکرینِ حدیث کا فلسفہ ہے جو مردود ہے۔
اشکال 6: ترمذی کی روایت ضعیف ہے، لیکن ابن ماجہ میں ابوبکر و عمر کے سردار ہونے کا ذکر ہے، وہاں انبیاء کو مستثنیٰ کیا گیا، حسنین کے معاملے میں کیوں نہیں؟
جواب:
ترمذی کی روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس میں حارث الاعور راوی ہے۔
لیکن سنن ابن ماجہ کی روایت بالکل صحیح ہے۔
کسی ایک شخصیت کی فضیلت بیان کرنے کا مطلب دوسری شخصیت کی تنقیص نہیں ہے۔ اگر کوئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل لے کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی توہین کرے تو یہ غلط ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہی ہوں گے، وہ ان کی قیادت میں ہوں گے۔
ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے، کہ ہم کہاں ہوں گے؟ اگر صحیح احادیث کے انکار پر جہنم کا فیصلہ ہو گیا تو کون بچا سکے گا؟ یاد رکھیں، زمانہ تدوین حدیث کے بعد کسی ایک صحیح و ثابت حدیث کا انکار کرنے والا بھی زندیق شمار ہوتا ہے۔
نتیجہ:
حدیث "حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں” مکمل طور پر صحیح ہے اور اس میں مذکور فضیلت قطعی ہے۔ اس پر اعتراضات یا اشکالات منکرینِ حدیث یا کم علم لوگوں کی جانب سے پیدا کیے گئے ہیں جن کی کوئی علمی یا شرعی بنیاد نہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب