إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
بَابُ فَضْلِ الْإِسْتِعَاذَةِ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجيمِ عِنْدَ الْغَضَبِ
غصہ کے وقت أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھنے کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾
(7-الأعراف:200)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجیے۔ بلاشبہ وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔“
حدیث: 1
عن سليمان بن صرد قال كنت جالسا مع النبى صلى الله عليه وسلم ورجلان يستبان فأحدهما احمر وجهه وانتفخت أوداجه فقال النبى إني لأعلم كلمة لو قالها ذهب عنه ما يجد لو قال أعوذ بالله من الشيطان ذهب عنه ما يجد فقالوا له إن النبى صلى الله عليه وسلم قال تعوذ بالله من الشيطان فقال وهل بي جنون وفي رواية أمجنونا تراني
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، رقم: 3282
حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور (قریب ہی) دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے کہ ایک آدمی کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ اگر یہ شخص پڑھ لے: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: تمہیں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اس نے کہا: کیا میں کوئی دیوانہ ہوں؟ اور ایک روایت میں ہے: ”کیا میں تجھے دیوانہ نظر آتا ہوں؟“
بَابٌ فَضْلِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُع
معاف کرنے اور عاجزی کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
(3-آل عمران:134)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
حدیث: 2
عن أبى هريرة عن رسول الله ص خ صلى الله عليه وسلم قال ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، رقم: 2588
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ مال کو کم نہیں کرتا اور (کسی کو) معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ ہی فرماتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے جھک جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے۔“
باب فضل المُسْتَضْعَفِينَ وَالْمَسَاكِينَ وَمَجَالِسِهِم
کمزور لوگوں اور مساکین سے محبت اور ان کے ساتھ مجالست (بیٹھنے) کی فضیلت کا بیان
حدیث: 3
وعن معاوية بن قرة عن عائذ بن عمرو أن أبا سفيان أتى على سلمان وصهيب وبلال فى نفر فقالوا والله ما أخذت سيوف الله من عنق عدو الله مأخذها قال فقال أبو بكر أتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فأخبره فقال يا أبا بكر لعلك أغضبتهم لئن كنت أغضبتهم لقد أغضبت ربك فأتاهم أبو بكر فقال يا إخوتاه أغضبتكم قالوا لا يغفر الله لك يا أخي
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل سلمان وبلال وصهيب، رقم: 6412
اور معاویہ بن قرہ، عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ، سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم کے پاس چند افراد کی موجودگی میں آئے تو انہوں نے (ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر) کہا: اللہ کی قسم! اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن (یعنی ابو سفیان رضی اللہ عنہ) سے اپنا حق وصول نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (ان سے) فرمایا: تم یہ بات قریش کے بزرگ اور ان کے سردار کے متعلق کہہ رہے ہو؟ (یعنی تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے) اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اے ابو بکر! شاید تو نے ان کو ناراض کر دیا ہے؟ اگر واقعی تو نے ان کو ناراض کر دیا، تو تو نے اپنے رب کو ناراض کر دیا۔“ پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: بھائیو! کیا میں نے تمہیں ناراض کر دیا؟ انہوں نے کہا: ”نہیں، پیارے بھائی! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔“
بَابٌ فَضْلِ الرَّحْمَةِ وَالشَّفْقَةِ عَلَى خَلْقِ الله
اللہ کی مخلوق پر رحمت و شفقت کرنے کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ
(17-الإسراء:110)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”کہہ دیجیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، تمام اچھے اچھے نام اسی کے ہیں۔“
حدیث: 4
وعن جرير بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من لا يرحم الناس لا يرحمه الله
صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول الله قل ادعوا الله أو ادعوا الرحمن، رقم: 7376
اور حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔“
بَابُ فَضْلِ الرَّحْمَةِ وَالشَّفْقَةِ وَالْقِيَامِ عَلَى الْأَوْلَادِ
اولاد کی دیکھ بھال اور ان پر رحمت و شفقت کرنے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 5
وعن النعمان بن بشير يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى المؤمنين فى تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى وفي رواية لمسلم مثل المؤمنين فى توادهم وتراحمهم وتعاطفهم
صحیح بخاری، کتاب الأدب، رقم: 6011، صحیح مسلم، رقم: 4586
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم و محبت اور محبت و شفقت کے پیش آنے میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی عضو بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے، ایسا کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“ اور مسلم شریف کی روایت میں ہے: ”مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رحمت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے۔“
باب فَضْلِ رَحمَةِ الضغيرِ وَإِكْرَامِ الكَيْرِ
چھوٹے پر رحم کرنے اور بڑے کی عزت و تکریم کرنے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 6
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا
سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب في الرحمة، رقم: 4943، سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، رقم: 1920، مستدرک حاکم: 62/1۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اور وہ (شعیب) اپنے دادا (عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کا ہم (مسلمانوں) سے کوئی تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، اور ہمارے بڑے کے شرف و فضل کو نہیں پہچانتا۔“
بَابُ فَضْلِ سَتْرِ الْمُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ حَيَاءً مِنَ اللهِ
اللہ سے حیا کرتے ہوئے مومن کی اپنی ستر پوشی کرنے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 7
وعن سالم بن عبد الله قال سمعت أبا هريرة يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه
صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب ستر المؤمن على نفسه، رقم: 6069
اور سالم بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے ان کے جو کھلم کھلا گناہ کرنے والے ہیں اور کھلم کھلا گناہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرتا ہے، اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا تھا، مگر صبح ہوتے ہی وہ کہتا پھرے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں، فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کے گناہ چھپائے رکھے، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ اپنے بارے میں خود ہی اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔“
بَابٌ فَضْلِ مَنْ سَتَرَ عَلَى مُؤْمِنٍ فِي الدُّنْيَا وَكَذَا مَنْ سَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ
دنیا میں کسی مومن کی ستر پوشی کرنے والے اور جس کی اللہ ستر پوشی کرے، اس کی فضیلت کا بیان
حدیث: 8
وعن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ستر مسلما ستره الله يوم القيامة
صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه، رقم: 2442
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“
بَابٌ فَضْلِ مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ
بھائی کی عزت کا دفاع کرنے والے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 9
عن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم قال من رد عن عرض أخيه رد الله عن وجهه النار يوم القيامة
سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الذب عن عرض المسلم، رقم: 1931، مسند أحمد: 449/6 و 450- شیخ حمزه زین نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ قیامت والے دن اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔“
بَابٌ فَضْلِ سَلَامَةِ الصَّدْرِ وَتَرْكِ الْحَسَدِ
سینہ محفوظ رکھنے اور حسد ترک کرنے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 10
وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ههنا ويشير إلى صدره ثلاث مرات بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحريم ظلم المسلم وخذله، رقم: 6541
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک دوسرے پر حسد نہ کرو، خرید و فروخت میں قیمت بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے اعراض اور بے رخی کرو اور نہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا کرے، اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہ کرے، نہ اسے بے سہارا چھوڑے، اور نہ اسے حقیر جانے، تقویٰ یہاں ہے“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: ”تقویٰ یہاں ہے۔ ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ہر مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“
باب فضل الإصلاح بَيْنِ النَّاسِ وَالْعَدْلِ بَيْنَهُمْ وَدَرَجَةِ الإِصْلاح
لوگوں کے درمیان صلح کرانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کی فضیلت اور صلح کا مقام
قَالَ اللهُ تَعَالَى : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠﴾
(16-النحل:90)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
حدیث: 11
وعن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ألا أنبئكم بدرجة أفضل من الصلاة والصيام والصدقة قالوا بلى قال صلاح ذات البين وفساد ذات البين هي الحالقة
الأدب المفرد للإمام البخاری، رقم: 391۔ محقق نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں، جو نماز، روزہ اور صدقہ سے افضل ہے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”آپس میں اصلاح کرنا اور آپس میں بگاڑ و اختلاف تو مونڈنے والا ہے۔“ (یعنی دین کو ختم کرنے والا ہے۔)
بَابُ فَضْلِ الصِّدْقِ
صداقت کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ
(33-الأحزاب:35)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں۔“
حدیث: 12
وعن أبى أمامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا زعيم ببيت فى ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا وببيت فى وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا وببيت فى أعلى الجنة لمن حسن خلقه
سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب حسن الخلق، رقم: 4800، سلسلة الصحيحة، رقم: 273
اور حضرت ابو أمامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیا، اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے مزاح کے طور پر بھی جھوٹ نہ بولا، اور اس شخص کے لیے جنت کے بلند ترین حصے میں ایک گھر کا ضامن ہوں جس نے اخلاق کو سنوارا۔“
بَابٌ فَضْلِ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ
امانت ادا کرنے اور وعدہ وفا کرنے کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴿٨﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩﴾ أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿١١﴾
(23-المؤمنون:1تا11)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”یقیناً کامیاب ہو گئے مومن، وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں، اور وہی جو لغو کاموں سے منہ موڑنے والے ہیں، اور وہی جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں، اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں، اور وہی جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
حدیث: 13
وحدثنا المغيرة بن شعبة الثقفي سمع أنس بن مالك يقول أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن لا عهد له
مسند أحمد: 251/3۔ أحمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کا کوئی ایمان نہیں، جس کی امانت نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔“
بَابُ فَضْلِ مَنْ يَنْصُرُ أَخَاهُ وَيَدْفَعُ عَنْهُ الْأَذَى
اس شخص کی فضیلت کا بیان جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اور اس سے تکلیف دور کرتا ہے
حدیث: 14
وعن ابن شهاب أن سالما أخبره أن عبد الله بن عمر أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ومن كان فى حاجة أخيه كان الله فى حاجته ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة
صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه، رقم: 2442
اور ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم نے ان کو خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اس پر ظلم ہونے دیتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گا، اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک تکلیف کو دور کرے گا، اللہ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور فرمائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔“
بَابُ فَضْلٍ مَنْ حَمَلَ مَتَاعَ صَاحِبِهِ فِي السَّفَرِ وَمَنْ دَلَّ الطَّرِيقَ
سفر میں اپنے بھائی کا سامان اٹھانے اور کسی راستہ بھولے ہوئے کو راستہ بتانے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 15
وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال كل سلامى عليه صدقة كل يوم يعين الرجل فى دابته يحامله عليها أو يرفع عليها متاعه صدقة والكلمة الطيبة وكل خطوة يمشيها إلى الصلاة صدقة ودل الطريق صدقة
صحیح بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب فضل من حمل متاع صاحبه في السفر، رقم: 2891
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے ہر جوڑ کی طرف سے ہر روز ایک صدقہ کرنا واجب ہے۔ آدمی کا کسی کو اپنی سواری پر بٹھانے میں یا اس کا سامان اٹھا کر اس پر رکھوانے میں اس کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، اور اچھی بات کرنا صدقہ ہے، نماز کی طرف اٹھنے والے ہر قدم میں صدقہ ہے اور راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے۔“
بَابٌ فَضْلِ مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ
بھلائی کی راہنمائی کرنے والے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 16
وعن أبى مسعود الأنصاري قال جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال إني أبدع بي فاحملني فقال ما عندي فقال رجل يا رسول الله أنا أدله على من يحمله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم من دل على خير فله مثل أجر فاعله
صحیح مسلم، کتاب الإمارة، باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله بمركوب وغيره وخلافته في أهله بخير، رقم: 4899
اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: میری سواری کا جانور ہلاک ہو گیا ہے، پس آپ مجھے سواری کا جانور دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس نہیں ہے۔“ تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس کو ایسا شخص بتاتا ہوں جو اس کو سواری فراہم کر دے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے بھلائی کی راہنمائی کی تو اس کو اس بھلائی پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔“
بَابُ شُكْرِ الْمَعْرُوفِ وَمُكَافَاةِ فَاعِلِهِ وَالدُّعَاءِ لَهُ
احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا اور اس کے لیے دعا کرنا اور اس کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : ﴿فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾
(2-البقرة:158)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تو بے شک اللہ شاکر، قدر دان اور علم والا ہے۔“
حدیث: 17
وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من لا يشكر الناس لا يشكر الله
سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الشكر لمن أحسن إليك، رقم: 1954، سلسلة الصحيحة، رقم: 416
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتا۔“
بَابُ التَّقْوى شَرْطٌ لِنَيْلِ الْوِلَايَةِ
تقویٰ اللہ تعالیٰ کی دوستی کے حصول کے لیے شرط ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى : أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾
(10-يونس:62تا63)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”خبردار! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں، وہ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔“
حدیث: 18
وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله قال من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب وما تقرب إلى عبدي بشيء أحب إلى مما افترضت عليه وما يزال عبدي يتقرب إلى بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت سمعه الذى يسمع به وبصره الذى يبصر به ويده التى يبطش بها ورجله التى يمشي بها وإن سألني لأعطينه ولئن استعاذني لأعيذنه
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم: 6502
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس شخص نے میرے کسی دوست کے ساتھ دشمنی کی، میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ میں نے بندے پر جو چیزیں فرض قرار دی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے (یعنی فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے (یعنی خلافِ شرع بات نہیں سنتا)، اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تو میں اسے وہ ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور اس سے پناہ دیتا ہوں۔“
بَابُ فَضْلِ مُجَاهَدَةِ النَّفْسِ وَالثَّبَاتِ عَلَى الطَّاعَاتِ وَإِنْ كَرِهَتْهَا النَّفوس
مجاہدہ نفس اور نیکیوں پر استقامت کی فضیلت اگرچہ یہ بات طبیعتوں پر ناگوار ہی کیوں نہ ہو
قَالَ اللهُ تَعَالَى : ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾
(29-العنكبوت:69)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے، یقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے۔“
حدیث: 19
وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لما خلق الله الجنة قال لجبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها ثم جاء فقال أى رب وعزتك لا يسمع بها أحد إلا دخلها ثم حفها بالمكاره ثم قال يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها ثم جاء فقال أى رب وعزتك لقد خشيت أن لا يدخلها أحد قال فلما خلق الله النار قال يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها ثم جاء فقال أى رب وعزتك لا يسمع بها أحد فيدخلها فحفها بالشهوات ثم قال يا جبريل اذهب فانظر إليها فذهب فنظر إليها ثم جاء فقال أى رب وعزتك لقد خشيت أن لا يبقى أحد إلا دخلها
سنن أبی داؤد، کتاب السنة، باب في خلق الجنة، رقم: 4744۔ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے جنت کو پیدا فرمایا تو جبریل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: جاؤ جنت دیکھو۔ جبریل علیہ السلام نے جا کر جنت دیکھی تو آ کر عرض کی: اے رب! تیری عزت کی قسم! اس جنت کا جو بھی سنے گا وہ اس میں ضرور داخل ہو گا۔ پھر اللہ نے جنت کو گراں گزرنے والے ناگوار کاموں سے ڈھانپ دیا، پھر ارشاد فرمایا: جبریل! جاؤ جنت دیکھو۔ پس جبریل علیہ السلام نے جا کر جنت دیکھی، پھر واپس آکر عرض کی: اے رب! تیری عزت کی قسم! میں تو ڈرتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آگ (جہنم) کو پیدا کیا تو جبریل علیہ السلام سے فرمایا: جاؤ آگ کو دیکھو، تو جبریل علیہ السلام نے جا کر آگ دیکھی پھر آ کر عرض کی: اے رب! تیری عزت کی قسم! اس آگ کا جو بھی سنے گا وہ اس میں داخل نہیں ہوگا۔ پھر اللہ نے آگ کو شہوات و خواہشات سے ڈھانپ دیا۔ پھر ارشاد فرمایا: جبریل! جا کر آگ کو دیکھو، جبریل علیہ السلام نے جا کر آگ کو دیکھا پھر آ کر عرض کی: اے رب! تیری عزت کی قسم! میں ڈرتا ہوں کہ کوئی بھی اس میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔“
بَابٌ فَضْلِ اِكْرَامِ الْمُسْلِمِ
اکرام مسلم کی فضیلت کا بیان
حدیث: 20
وعن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، باب المسلم من سلم المسلمون، رقم: 10
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔“
باب فضل الاسقَامَةِ عَلَى الطَّاعَةِ حَتَّى الْمَوْتَ
مرتے دم تک اطاعت اختیار کرنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى :إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾
(41-فصلت:30تا31)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے۔ ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو، تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے۔“
حدیث: 21
وعن سفيان بن عبد الله الثقفي قال قلت يا رسول الله قل لي فى الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا بعدك وفي حديث أبى أسامة غيرك قال قل آمنت بالله فاستقم
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، باب جامع أوصاف الإسلام، رقم: 159
اور حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتائیں کہ آپ کے بعد میں کسی سے سوال نہ کروں، اور ابو أسامہ راوی کی حدیث میں ہے: آپ کے علاوہ (کسی سے نہ پوچھنا پڑے)۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر ڈٹ جا۔“
بَابُ فَضْلِ مَنِ اتَّقِي الشُّبُهَاتِ
شبہات سے بچنے والے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 22
وعن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الحلال بين والحرام بين وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات كراع يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه ألا وإن لكل ملك حمى ألا إن حمى الله فى أرضه محارمه ألا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهى القلب
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، رقم: 10
اور عامر بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی مشکوک چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشکوک چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ قریب ہے کہ وہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے)۔ سن لو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا تو سارا بدن درست ہوگا اور جب وہ ٹکڑا بگڑا تو سارا بدن بگڑ جائے گا، سن لو! وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔“
بَابُ أهمية العَمَلِ الصَّالِحِ فِي الْحَيَاةِ
زندگی میں عمل صالح کی اہمیت کا بیان
حدیث: 23
وحدثنا عبد الله بن أبى بكر بن عمرو بن حزم سمع أنس بن مالك يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبع الميت ثلاثة فيرجع اثنان ويبقى معه واحد يتبعه أهله وماله وعمله فيرجع أهله وماله ويبقى عمله
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب سكرات الموت، رقم: 6514
اور جناب عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم بیان کرتے ہیں، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں میت کے پیچھے جاتی ہیں۔ پس دو چیزیں واپس آ جاتی ہیں اور ایک (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کا عمل اس کے پیچھے جاتے ہیں۔ پس اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آ جاتے ہیں اور اس کا عمل (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتا ہے۔“
بَابٌ تَذْكِيرِ الْآخِرَةِ
آخرت یاد دلانے کا بیان
حدیث: 24
وعن المقداد بن الأسود قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم كمقدار ميل قال سليم بن عامر فوالله ما أدري ما يعني بالميل أمسافة الأرض أم الميل الذى تكتحل به العين قال فيكون الناس على قدر أعمالهم فى العرق فمنهم من يكون إلى كعبيه ومنهم من يكون إلى ركبتيه ومنهم من يكون إلى حقويه ومنهم من يلحمه العرق الجاما قال وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فيه
صحیح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعيمها، باب صفة يوم القيامة، رقم: 7206
اور حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”قیامت والے دن سورج مخلوق کے اتنا قریب ہو گا حتیٰ کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہو گا۔“ سلیم بن عامر (راوی) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کیا تھی؟ کیا زمین کی مسافت یا (سرمہ دانی کی) وہ سلائی جس سے آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے (عربی میں اسے بھی میل کہتے ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ”پس لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے۔ پس بعض ان میں سے ایسے ہوں گے جن کا پسینہ ان کے ٹخنوں تک رہے گا، اور بعض ان میں سے ایسے ہوں گے جن کا پسینہ ان کے گھٹنوں تک ہوگا اور بعض کا پسینہ ان کی کمر تک ہوگا، اور بعض ایسے ہوں گے کہ انہیں پسینے نے لگام ڈالی ہوگی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا (یعنی اس کے منہ اور کانوں تک پسینہ ہوگا)۔
بَابُ الْإِحْسَانِ إِلَى الْخَادِمِ
نوکر کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حدیث: 25
وعن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمملوك طعامه وكسوته ولا يكلف من العمل إلا ما يطيق
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم: 4316، مسند أحمد: 239/1۔ أحمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام کا حق یہ ہے کہ اسے کھانا اور کپڑا دیا جائے، اور اس پر کام کا صرف اتنا بوجھ ڈالا جائے، جس کو وہ سہار سکتا ہو۔“
بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النبى صلى الله عليه وسلم نصح عبد الله ابن عَبَّاسِ رضي الله عنه
ان نصیحتوں کا بیان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عباس کو کیں
حدیث: 26
وعن عبد الله بن عباس أنه ركب خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم يا غلام إني معلمك كلمات احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك وإذا سألت فلتسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعوا على أن ينفعوك لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف
سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الشكر لمن أحسن إليك، رقم: 1954، سلسلة الصحيحة، رقم: 416
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے لڑکے! میں تجھے چند اہم باتیں بتاتا ہوں، (انہیں یاد رکھ) تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت فرمائے گا۔ تو اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھ، تو اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے سوال کر۔ جب تو مدد چاہے تو صرف اللہ سے مدد طلب کر۔ اور یہ بات جان لے کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے (یعنی لکھ کر فارغ ہو گئے) اور صحیفے (نوشتہائے تقدیر) خشک ہو گئے۔“
بَابٌ فَضْلِ التَّوَكَّلِ
توکل علی اللہ کی فضیلت کا بیان
حدیث: 27
وأخبرني بكر بن عمرو أنه سمع عبد الله بن هبيرة يقول إنه سمع أبا تميم الجيشاني يقول أنه سمع نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول لو أنكم تتوكلون على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا
مسند أحمد: 30/1، سنن الترمذی، أبواب الزهد، باب في التوكل على الله، رقم: 2344، سلسلة الصحيحة، رقم: 310
اور بکر بن عمرو بیان کرتے ہیں، انہوں نے عبد اللہ بن ہبیرہ کو فرماتے ہوئے سنا، انہوں نے ابو تمیم جیشانی کو فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”اگر تم اللہ پر صحیح معنی میں توکل کرو تو وہ تمہیں ایسے رزق دے جیسے وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے۔ وہ صبح بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔“
بَابُ الْإِيْمَانِ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِه
اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنے کا بیان
حدیث: 28
وعن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لكل شيء حقيقة وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه
مسند أحمد: 441/6-442۔ شیخ حمزه زین نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی حقیقت ہے اور کوئی آدمی اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا یہاں تک کہ وہ جان لے کہ بے شک جو اس کو (کوئی حقیقت) پہنچنے والی ہے وہ اسے پہنچ کر رہے گی، اور جو اس کو نہیں پہنچی وہ اس کو پہنچنے والی نہیں۔“
بَابُ الْإِحْسَانِ
ہر کسی پر احسان کرنے کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى : ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾
(16-النحل:90)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“
حدیث: 29
وعن شداد بن أوس إن الله كتب الإحسان على كل شيء فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح وليحد أحدكم شفرته فليرح ذبيحته
صحیح مسلم، کتاب الصيد، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحديد الشفرة، رقم: 5055
اور حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے ہر کسی پر احسان کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ پس جب تم (قصاص کے طور پر) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب کوئی جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر آدمی کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کر لے، اور اپنے ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچائے۔“
بَابُ الْخُلُقِ الْحَسَنِ
اچھے اخلاق کا بیان
حدیث: 30
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا وقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من خيركم أحسنكم خلقا
صحیح بخاری، کتاب الأدب، رقم: 6029
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدگو نہ تھے اور نہ آپ بدزبان تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔“
بَاب قَوْلِهِ تَعَالَى: وَاللَّهَ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بیان: اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا
قَالَ اللهُ تَعَالَى : ﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
(3-آل عمران:57)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔“
حدیث: 31
وعن أبى صخر المديني أن صفوان بن سليم أخبره عن علة من أبناء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن آبائهم دينة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفسه فأنا حجيجه يوم القيامة
سنن أبی داؤد، کتاب الخراج، رقم: 3052- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور جناب ابو صخر المدینی سے روایت ہے کہ صفوان بن سلیم نے یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولادوں سے بیان کی جو اپنے آباء (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! جس کسی نے کسی عہد والے (ذمی) پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی (یعنی اس کے حق میں کمی کی) یا اس کی ہمت سے بڑھ کر اسے کسی بات کا مکلف کیا یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔“
بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
صلہ رحمی کا بیان
حدیث: 32
وعن أبى هريرة أن رجلا قال يا رسول الله إن لي قرابة أصلهم ويقطعوني وأحسن إليهم ويسيئون إلى وأحلم عنهم ويجهلون على فقال لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2558
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں۔ میں ان سے حسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان سے تحمل اور بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ نادانی سے پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا ہے، تو گویا تو ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں تیرے ساتھ ہمیشہ اللہ کی طرف سے ایک مددگار رہے گا، جب تک تیرا رویہ ایسا رہے گا۔“
بَابُ فَضْلِ زِيَارَةِ الْإِخْوَانِ وَالصَّالِحِيْنَ فِي اللهِ عَزَّ وَجَلَّ
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے بھائیوں اور نیک لوگوں کی ملاقات کی فضیلت کا بیان
حدیث: 33
وعن أبى هريرة عن النبى أن رجلا زار أخا له فى قرية أخرى فأرصد الله له على مدرجته ملكا فلما أتى عليه قال أين تريد قال أريد أخا فى هذه القرية قال هل لك عليه من نعمة تربها قال لا غير أني أحببته فى الله عز وجل قال فإني رسول الله إليك بأن الله قد أحبك كما أحببته فيه
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2558
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے دوسری بستی میں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ بٹھا دیا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو فرشتے نے پوچھا: «أَيْنَ تُرِيدُ»؟ اس نے کہا: میں اس بستی میں اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا تیرا اس پر کوئی احسان ہے جس کا بدلہ لینے جا رہا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بس میں اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیری طرف بھیجا گیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے ویسی ہی محبت کرتا ہے جیسے تو نے اس سے اس کی خاطر محبت کی۔“
بَابُ الْحُبِّ فِي اللهِ سَبَبٌ لِدَوْقِ حَلَاوَةِ الْإِيمَانِ
اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت ایمان کی مٹھاس چکھنے کا سبب ہے
حدیث: 34
وعن أنس بن مالك عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله وأن يكره أن يعود فى الكفر كما يكره أن يقذف فى النار
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل الحب في الله تعالى، رقم: 6549
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص میں تین خصلتیں ہوں، اس نے ایمان کی مٹھاس پا لی۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسرا یہ کہ وہ کسی سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرے۔ تیسرا یہ کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اتنا ہی برا سمجھے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔“
بَابُ الْأَمْرِ بِإِعْلَامِ الْمَحَبَّةِ وَفَضْلِ ذَلِكَ
جس سے محبت ہو اسے اس بارے میں بتانے کا حکم اور اس کی فضیلت کا بیان
حدیث: 35
وعن أنس بن مالك أن رجلا كان عند النبى صلى الله عليه وسلم فمر به رجل فقال يا رسول الله إني لأحب هذا فقال له النبى أعلمته قال لا قال أعلمه قال فلحقه فقال إني أحبك فى الله فقال أحبك الذى أحببتني له
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، باب حلاوة الإيمان، رقم: 16، سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، رقم: 5125، سنن ترمذی، رقم: 2386، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک دوسرا آدمی وہاں سے گزرا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے اسے بتایا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بتا دے۔“ راوی کہتے ہیں کہ وہ اس سے ملا اور کہا: میں اللہ تعالیٰ کی خاطر تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے کہا: وہ ذات تجھ سے محبت کرے جس کی خاطر تو نے مجھ سے محبت کی۔
بَابٌ قَوْلُهُ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا بیان کہ آدمی اپنے محبوب کے ساتھ ہو گا
حدیث: 36
وعن أنس أن رجلا سأل النبى صلى الله عليه وسلم عن الساعة فقال متى الساعة قال وماذا أعددت لها قال لا شيء إلا أني أحب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم فقال أنت مع من أحببت قال أنس فما فرحنا بشيء فرحنا بقول النبى أنت مع من أحببت قال أنس فأنا أحب النبى صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر وأرجو أن أكون معهم بحبي إياهم وإن لم أعمل بمثل أعمالهم
صحیح بخاری، کتاب فضائل أصحاب النبي، رقم: 3688
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے متعلق پوچھا کہ وہ کب قائم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟“ اس نے کہا: کچھ بھی نہیں، سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت کرتا ہے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں کبھی کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس حدیث سے ہوئی کہ تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت کرتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان سے محبت کی وجہ سے میرا حشر ان کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کر سکا۔
بَابُ فَضْلِ حُبِّ وَثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى الرَّجُلِ الصَّالِحِ
نیک آدمی سے لوگوں کی محبت اور اس کی تعریف کرنے کی فضیلت کا بیان
حدیث: 37
وعن أبى ذر قال قيل لرسول الله أرأيت الرجل يعمل العمل من الخير ويحمده الناس عليه قال تلك عاجل بشرى المؤمن وفي رواية ويحبه الناس عليه بدل ويحمده الناس عليه
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب إذا أثنى على الصالح فهي بشرى ولا تضره، رقم: 6721، 6722
اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومن کے لیے پیشگی خوشخبری ہے۔“ ایک روایت میں ہے کہ لوگ اس عمل کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔
بَابُ فَضْلِ مُجَالَسَةِ الصَّالِحِينَ وَمُصَاحَبَتِهِمْ
نیک لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی مصاحبت اختیار کرنے کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ﴿٦٧﴾ يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿٦٨﴾
(43-الزخرف:67، 68)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔ اے میرے بندو! آج تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔“
حدیث: 38
وعن أبى موسى عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إنما مثل الجليس الصالح والجليس السوء كحامل المسك ونافخ الكير فحامل المسك إما أن يحذيك وإما أن تبتاع منه وإما أن تجد منه ريحا طيبة ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك وإما أن تجد ريحا خبيثة وفي رواية البخاري مثل الجليس الصالح والجليس السوء كمثل صاحب المسك وكير الحداد لا يعدمك من صاحب المسك إما تشتريه أو تجد ريحه وكير الحداد يحرق بدنك أو ثوبك أو تجد منه ريحا خبيثة
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب استحباب مجالسة الصالحين ومجانبة قرناء السوء، رقم: 6692، صحیح بخاری، کتاب البیوع، رقم: 2101
اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک آدمی اور برے آدمی کی صحبت کی مثال ایسی ہے جیسے خوشبو والے اور لوہے کی بھٹی والے کی۔ خوشبو والا یا تو تجھے خوشبو عطیہ کر دے گا، یا تو اس سے خرید لے گا، یا اس کے پاس بیٹھ کر اچھی خوشبو محسوس کرے گا۔ اور بھٹی والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔“ اور بخاری کی روایت میں ہے: ”نیک ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال خوشبو والے اور لوہار کی بھٹی والے کی ہے۔ خوشبو والا تجھے محروم نہیں رکھے گا، یا تو اس سے خوشبو خرید لے گا یا اس کے پاس خوشبو پائے گا، اور لوہار کی بھٹی تیرا جسم یا کپڑا جلا دے گی یا تو اس سے بدبو پائے گا۔“
بَابُ فَضْلِ مَنْ يُرْجَى خَيْرُهُ وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ
اس آدمی کی فضیلت کا بیان جس کی اچھائی کی امید رکھی جاتی ہے اور اس کے شر سے محفوظ رہا جاتا ہے
حدیث: 39
وعن أبى هريرة أن رسول الله وقف على أناس جلوس فقال ألا أخبركم بخيركم من شركم قال فسكتوا فقال ذلك ثلاث مرات فقال رجل بلى يا رسول الله أخبرنا بخيرنا من شرنا قال خيركم من يرجى خيره ويؤمن شره وشركم من لا يرجى خيره ولا يؤمن شره
سنن الترمذی، أبواب الفتن، رقم: 2263، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی مجلس کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے اچھے اور برے کی خبر نہ دوں؟“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ خاموش ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، تو ایک آدمی نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! ہمیں ضرور بتائیں کہ ہم میں سے اچھا کون ہے اور برا کون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جس سے اچھائی کی امید رکھی جا سکے اور اس کے شر سے محفوظ رہا جا سکے، اور تم میں سے برا وہ ہے جس سے اچھائی کی امید نہ رکھی جا سکے اور اس کے شر سے محفوظ نہ رہا جا سکے۔“
بَابُ حِفْظِ الْمَوَدَّةِ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
آدمی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے
حدیث: 40
وعن أنس عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه
صحیح بخاری، کتاب الإيمان، باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، رقم: 12
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين