حسنین کریمینؓ کا عقیقہ ، ایک روایت کی تحقیق

تحریر: مولانا ابراہیم ربانی (بدین ،سندھ )، ماہنامہ نور الحدیث، شمارہ 29

امام ابوداؤ د فر ماتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْن كَبْشًا كَبْشًا .
’’ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسینؓ کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا ۔‘‘
(سنن أبي داود : ٢٨٤١ و اسناده صحيح)
اس حدیث کو بہت سے آئمہ و علماء نے صحیح قرار دیا ہے۔
امام ابن الجارودؒ (المتوفی ۳۰۷ھ ) کا اپنی کتاب ’’المنتقی ‘‘ (۹۱۲،۹۱۱) میں اور
امام ضیاء مقدسیؒ (المتوفی ۶۴۳ھ) کا اپنی کتاب ’’المختارة‘‘ ( ۲۸۲ ) میں اس حدیث کو درج کرنا ان کی طرف سے تصحیح ہے۔
امام عبد الاحق الاشبیلیؒ (المتوفی ۵۸۱ ھ ) فرماتے ہیں:
وهو صحيح .
(أحكام الوسطىٰ، ١٤١/٤)
امام ابن دقیق العیدؒ (المتوفی ۷۰۲ھ) نے صحیح کہا ہے۔
(الاقتراح في بيان الإصطلاح، ص : ١٠٠)
امام ابن الملقنؒ (المتوفی ۸۰۴) فرماتے ہیں:
قال عبد الحق: هذا حديث صحيح .
(البدر المنير : ٣٠٤/٩)
امام عراقیؒ (المتوفی ۸۰۶ھ) نے اصح قرار دیا ہے۔ (طرح التثريب : ٢٠٢/٥)
امام ابن عبد الہادیؒ (المتوفی ۷۴۴ھ) فرماتے ہیں:
وإســنــاده على شرط البخاري.
(المحرر في الحديث : ١ / ٤٢٠)
امام نوویؒ (المتوفی ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
فرواه أبو داود بإسناد صحيح .
(المجموع : ٤٢٨/٨)
امام زین الدین زکریا انصاریؒ (المتوفی ۹۲۶ھ) فرماتے ہیں:
روى أبو داؤد بإسناد صحيح .
(أسنى المطالب : ٥٤٩/١)
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وقد صححه عبد الحق الأشبيلي في الأحكام الكبرى ‘‘. (أرواء الغليل : ٣٧٩/٤)
محدث العصر حافظ زبیر علیؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(تحقیق سنن أبی داود : ٢٨٤١)

رواۃ حدیث کا مختصر تعارف:

اس حدیث کے تمام راوی بخاری و مسلم کے رواۃ میں سے ہیں۔
➊ ابو معمر عبد اللہ بن عمرو:
یہ ثقہ ثبت ہیں۔
(تقريب التهذيب : ٣٤٩٨)
➋ عبد الوارث بن سعید بن ذکوان :
یہ بھی ثقہ ثبت ہیں ۔
(التقريب : ٤٢٥١)
➌ ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی:
یہ ثقہ ثبت حجتہ ہیں ان کا شمار کبار فقہاء میں ہوتا ہے۔
(التقريب : ٦٠٥ )
➍ عکرمه مولٰی ابن عباس:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
ثقة ثبت عالم بالتفسير .
➎ سید نا عبد اللہ بن عباس:
یہ جلیل القدر صحابی ہیں۔

بعض شبہات کا ازالہ:

(التقريب : ٤٦٧٣)

شبه ۱:

اس حدیث کو موصولاً و مرفوعاً بیان کرنے میں عبد الوارث بن سعید اکیلا ہے۔

ازاله:

عبد الوارث بن سعید ثقہ ثبت راوی ہے اصول محدثین کی رو سے ایسے راوی کے تفرد پر اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔

عبد الوارث بن سعید کی توثیق:

ان کی صحیحین کے ساتھ ساتھ صحیح ابن خزیمہ، المنتقى لابن الجارود، صحیح ابن حبان، المختاره وغیرہ میں روایتیں موجود ہیں جو کہ مذکورہ کتب کے مصنفین کی طرف سے ان کی توثیق ہے کیونکہ ان کتب میں صحت کا التزام کیا گیا ہے اور صحت حدیث سے راویوں کا ثقہ ہونا لازم آتا ہے اسے توثیق ضمنی کہا جاتا ہے۔
امام ابو حاتم الرازی نے ثقہ کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل : ٧٥/٦)
امام ابوزرعہ الرازی فرماتے ہیں:
ثقة . (ایضاً)
امام ابن حبان نے فرمایا:
متقنا في الحديث .
(الثقات : ٧/ ١٤٠ تا ٩٣٦٨)
امام ابن سعد نے فرمایا:
وكان ثقة حجة .
(طبقات الكبرىٰ : ٧/ ٢١٢)
حافظ ذہبی نے فرمایا:
ثبت صالح .
(الكاشف : ١/ ٦٧٣)
حافظ ابن حجر نے ثقہ ثبت کہا ہے۔
(التقريب : ٤٢٥١)
ثابت ہوا عبد الوارث ائمہ کے نزدیک قابل اعتماد ثقہ راوی ہیں۔

شبه ۲:

عبد الوارث بن سعید نے ثقات کی مخالفت کی ہے کیونکہ معمر اور سفیان ثوری ایوب سے مرسل بیان کرتے ہیں جیسا کہ مصنف عبد الرزاق میں موجود ہے:
عن معمر والثوري ، عن أيوب عن عكرمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: عق عن حسن وحسين كبشين. (الرقم : ٧٩٦٢)

ازاله:

اولا :
مخالفت والی بات غلط ہے عبدالوارث نے سند میں زیادتی کی ہے اور اصول محدثین کی رو سے ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے الا یہ کہ اس زیادتی میں مخالفت نہ ہو اور اس میں مخالفت نہیں ہے کیونکہ ثوری اور معمر مرسل بیان کر رہے ہیں ان کی سند میں ایک واسطہ حذف ہے اور عبد الوارث موصول و مرفوع بیان کر رہے ہیں اس میں وہ محذوف راوی ظاہر ہو گیا یہ ایک زیادتی ہے، اصول محدثین ’’الزيادة من الثقات مقبولة ‘‘ کے تحت عبدالوارث کی زیادتی کو قبول کیا جائے گا ایسے مقامات پر محدثین کا یہی طریقہ کا ر رہا ہے۔ اس طرح کی ایک مثال سنن الکبریٰ بیہقی سے پیش خدمت ہے:
محمد بن ہارون المسکی فرماتے ہیں، امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری سے ایک حدیث
’’اســــــرائيـــل ، عـن ابـــی اسحاق، عن ابى برده ، عن ابيه عن النبی ﷺ قال:
((لا نكاح إلا بولی))
کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام بخاری نے دوٹوک الفاظ میں فرمایا:
الزيادة من الثقة مقبولة، وإسرائيل بن يونس ،ثقة ، وإن كان شعبة، والثوري أرسلاه، فإن ذلك لا يضر الحديث۔
ثقہ کی زیادت مقبول ہے ( کیونکہ ) اسرائیل بن یونس ثقہ ہے اور اگر چہ شعبہ اور ثوری نے اسے مرسل بیان کیا ہے لیکن اس سے حدیث کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
(السنن الكبرىٰ للبيهقى : ٧/ ١٧٥)
امام حاکم فرماتے ہیں:
وهذا شرط الصحيح عند كافة فقهاء أهل الإسلام أن الزيادة في الأسانيد والمتون من الثقات مقبولة .
یہ تمام فقهاء اسلام کے نزدیک صحیح حدیث کی شرط ہے کہ ثقہ کی اسانید اور متون میں زیادت مقبول ہوتی ہے۔
(المستدرك : ٤٢/١)
لہٰذا عبد الوارث بن سعید کی زیادتی کو مخالفت سے تعبیر کر کے رد کر دینا سینہ زوری ہے۔ نیز آئمہ کے نزدیک عبد الوارث کا ایوب سے سماع انتہائی مضبوط ہے جیسا کہ امام عثمان بن سعید الدار می فرماتے ہیں:
قلت:
هو أحب إليك في أيوب أو عبد الوارث؟
فقال:
عبد الوارث،
قلت:
فابن عيينة أحب إليك في أيوب أو عبد الوارث؟
فقال: عبد الوارث
عبد الوارث۔ میں نے (امام یحیی بن معین سے ) کہا: ایوب سے روایت کرنے میں آپ کو وہ (ثقفی) پسند ہے یا عبد الوارث؟ تو انہوں نے فرمایا:
عبد الوارث ۔ میں نے کہا:
ایوب سے بیان کرنے میں آپ کو ابن عیینہ پسند ہے یا عبد الوارث؟
تو انہوں نے فرمایا:
عبدالوارث –
(تاریخ ابن معین برواية الدارمي ، ص : ٥٤)
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین کے مذکورہ کلام سے واضح ہوا کہ امام ایوب سختیانی سے روایت کرنے میں عبد الوارث کئی ثقہ رواۃ سے مقدم ہیں اور ان کا ایوب سے سماع پختہ ہے اور یہ روایت بھی ایوب ہی سے بیان کر رہے ہیں۔
ثانياً:
مصنف عبد الرزاق والی مذکورہ دونوں سندیں ثابت ہی نہیں ہیں ایک تو دونوں میں امام عبد الرزاق کی تدلیس ہے، دوسرا سفیان ثوری خود مدلس ہیں ان کا عنعنہ ہے، لہٰذا عبدالوارث کی صحیح ترین سند کے مقابلے میں تدلیس شدہ اسانید کو پیش کرنا نا انصافی ہے۔

شبه۳ :

امام ابو حاتم نے عبد الوارث کی روایت کو وہم اور اس کے مرسل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔
(علل الحديث : ٥٤٣/٤)

ازاله:

بہت سے ائمہ دین کی تصحیح کے مقابلے میں امام ابو حاتم کا قول مرجوح ہے دوسرا یہ کہ جس سند کے مرسل ہونے کو امام صاحب اصح کہہ رہے ہیں وہ سند مطبوعہ کتب حدیث میں سے کسی میں بھی نہیں ملی جیسا کہ علل الحدیث کے محققین نے فرمایا:
ولم نقف على روايته، لكن أخرجه عبد الرزاق فى المصنف“ (٧٨٦٢) عن معمر وسفيان الثوري، كلاهما عن أيوب، عن عكرمة مرسلاً . (٥٤٣/٤)
یہ وہی مرسل روایت ہے جس کا غیر ثابت ہونا واضح ہو چکا ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ عبدالوارث کا ایوب سے سماع انتہائی مضبوط ہے جیسا کہ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین کے قول سے ثابت ہوا تو اس روایت کو صرف امام ابو حاتم کے قول کے پیش نظر و ہم کہنا غلط ہے بلکہ امام ابو حاتم کا قول ہر لحاظ سے مرجوح ہے۔

شبہ۴:

علامہ البانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
صحیح ، لكن في رواية النسائي: "كبشين كبشين“ وهو الأصح .
(صحيح و ضعيف سنن أبي داود : ٢٨٤١)

ازالہ:

سنن نسائی کی جس حدیث میں کبشین کا ذکر ہے وہ قتادہ بن دعامہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ قتادہ بن دعامہ کا ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بلکہ کثیر التدلیس ہونا بھی مسلمہ ہے۔ حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم کے مطابق بھی تیسرے درجے کے مدلس ہیں۔
(طبقات المدلسين مع الفتح المبين، ص : ١١١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
مشهور بالتدليس . (ايضاً)
تفصیل کے لیے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی کی کتاب ”فتح المبین‘‘ ملاحظہ کریں۔
امام عراقی (المتوفی ۸۰۶ھ) فرماتے ہیں:
رواية الإفراد أصح لأنها من رواية أيوب وقتادة مدلس
روایت افراد ( كبشا كبشا والی روایت ) اصح ہے کیونکہ یہ ایوب سے مروی ہے اور ( جبکہ کبشین کبشین والی روایت میں ) قتادہ مدلس ہے۔
(طرح التثريب : ٢٠٢/٥)
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں:
اسناده ضعيف قتاده عنعن .
(أنوار الصحيفة، ص : ٣٢٥)
ملحوظ رہے کہ کبشین کبشین والی روایت ضعیف ہے اگر ثابت بھی ہو جائے تو کبشاً كبشاً والی حدیث کو ضعیف نہیں کہا جائے گا بلکہ دونوں میں مناسب تطبیق پیش کی جائے گی جیسا کہ بعض اہل علم (جن کے نزدیک دونوں صحیح ہیں) نے تطبیق دی ہے۔
(فیض القدیر للمناوى: ٣٦٣/٤)

شبه۵:

کبشین کبشین کی تائیدام کرز وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جس میں شیاتین کا ذکر ہے۔

ازالہ:

ام کرز کی روایت کو تائیداً پیش کرنا درست ہے بلکہ ام کرز کعبیہ کی صحیح حدیث (سنن أبي داود : ۲۸۳٤ و اسناده صحیح) کبشین کبشین والی ضعیف حدیث سے ہمیں بے پروا کر دیتی ہے جیسا کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی نے فرمایا:
وحديث أبي داؤد (٢٨٣٤ وسنده صحيح)
يغنى عنہ .
(الأنوار، ص : ٣٥٢)
اور ابن عباسؓ سے صحیح سند سے یہی (كبشاً كبشاً) مروی ہے، دراصل اس مسئلہ میں سلف کا بھی اختلاف تھا کہ بچے کی طرف سے ایک جانور ( بکری / بھیڑ ) ذبح کیا جائے یا دو؟ ایک کے قائلین اسی روایت کو پیش کرتے چلے آرہے ہیں جیسا کہ بدایۃ المجتہد کے مصنف ابن رشد (المتوفی ۵۹۵ھ) نے فرمایا:
وسبب اختلافهم اختلاف الآثار في هذا الباب؛ فمنها حديث أم كرز الكعبية خرجه أبو داود قال: سمعت رسول الله الله يـقــول في العقيقة عن الغلام شاتان مكافاتان، وعن الجارية شاة والمكافاتان: المتماثلتان . وهذا يقتضى الفرق في ذلك بين الذكر والأنثى وما روي أنه عق عن الحسن والحسين كبشاً كبشاً يقتضي الاستواء بينهما .
اس مسئلے میں اختلاف کا سبب آثار کا مختلف ہونا ہے، ان (احادیث) میں سے ام کرز کعبیہ کی حدیث ہے جسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عقیقے کے بارے میں فرمایا:
”لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی ۔“
یہ حدیث مذکر اور مؤنث میں فرق کا تقاضا کرتی ہے اور اسی طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین کے عقیقے میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا، یہ حدیث مذکر و مؤنث میں برابری کا تقاضا کرتی ہے۔ (بدایۃ المجتهد : ٣/ ١٥)
ابن رشد کے بیان سے واضح ہوا کہ حدیث ابن عباس ایک کے قائلین کی دلیل ہے اور دو کے قائلین کی دلیل حدیث ام کرز ہے۔
نیز علامہ ابن عبد البر الله (المتوفی ۴۶۳ھ) نے بھی حدیث ابن عباس کو ایک کے قائل امام مالک کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(الاستذكار : ٣١٨/٥)
اس بارے میں حق بات یہی ہے کہ ام کرز کعبیہ کی حدیث (سنن أبی داؤد : ٢٨٣٤ وسنده صحیح) اور دوسرے دلائل کی رو سے بچے کی طرف سے دو جانور ( بکری بھیٹر ) ذبح کرنا افضل و بہتر ہے البتہ ابن عباسؓ سے مروی زیر بحث صحیح حدیث کی رو سے بچے کی طرف سے ایک جانور ( بکری بھیٹر ) ذبح کرنا بھی جائز ہے۔ صحابہ میں سے سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے بھی لڑکے کی طرف سے ایک بکری یا بھیٹر ذبح کرنا ثابت ہے۔
(مؤطا امام مالك مع ضوء السالك للشيخ الاثرى، ص : ٢٩٤ و اسناده صحیح)
اسی طرح جناب عروہ بن زبیر بھی اسی کے قائل تھے۔
(ايضاً وإسناده صحيح)
امام زہریؒ سے بھی یہی مروی ہے۔
(مصنف ابن ابي شيبة ، ح : ٢٤٢٥٣)
امام مالکؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(موطا إمام مالك ، ص : ٢٩٤)
امام ذکر یا انصاریؒ (المتوفی ۹۲۶ھ) نے اسی حدیث کی بنا پر لڑکے کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کو جائز کہا ہے۔
(اسنی المطالب : ٥٤٩/١)
محمد بن احمد الخطيب الشربینی (المتوفی ۹۷۷ھ) نے فرمایا:
ويتأدى أصل السنة عن الغلام بشاة واحدة لما روى أبو داود بإسناد صحيح أنه ﷺ عق عن الحسن والحسين كبشاً كبشاً .
لڑکے کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنے سے بھی اصل سنت ادا ہو جائے گی، ابو داؤد کی صحیح سند سے مروی حديث " أنه لا عــق عــن الحسن والحسين كبشاً كبش‘‘ کی وجہ سے۔
(مغنی المحتاج : ٦/ ١٣٩)
امام احمد بن محمد بن علی الانصاریؒ (المتوفی ۷۱۰ ھ) فرماتے ہیں:
واما الجواز فالشاة الواحدة يتادى بها سنة العقيقة في الجارية والغلام؛ لأنهـ عليه السلام۔ عق عن الحسن والحسين كبشاً كبشاً كذا رواه أبو داود عن ابن عباس۔
رہی بات جائز ہونے کی تو لڑکے اور لڑکی کی طرف سے ایک ایک بکری ذبح کرنے سے سنت ادا ہو جائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین کے عقیقے میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا تھا۔
(كفاية النبيه في شرح التنبيه : ١٢٥/٨)
امیر صنعانی نے ابن عباسؓ کی حدیث کی رو سے لڑکے کی طرف سے ایک جانور کے ذبح کرنے کو جائز کہا ہے۔
(التحبير لإيضاح معانى التيسير : ٧/ ٦٥٩)

شبہ ٦:

حسن و حسینؓ کی طرف سے ایک ایک مینڈھا ذبح کرنا نبی اکرم ﷺ کا خاصہ ہے۔
(لمعات التنقيح لعبد الحق الدهلوي : ۲۱۸/۷)

ازالہ:

خاصے کے لیے دلیل درکار ہے اگر خاصہ ہوتا تو صحابہ میں سے اس کا کوئی قائل نہ ہوتا حالانکہ عبد اللہ بن عمرؓ ایک کے قائل و فاعل تھے۔ کمامر ۔ اور صحابہ میں سے کسی کا بھی ابن عمرؓ پر اعتراض نہ کرنا دلیل ہے کہ یہ خاصہ نہیں تھا، اسی طرح سلف میں سے بھی کئی آئمہ اس کے قائل ہیں۔

شبہ۷:

حدیث ابن عباس منسوخ ہے اور حدیث ام کرز اس کا ناسخ ہے۔
(لمعات التنقيح : ٢١٨/٧)

ازالہ:

منسوح کہنا بہت مشکل ہے ائمہ محدثین نے حدیث ابن عباس کو جواز اور حدیث ام کرز کو استحباب پر محمول کیا ہے اور یہی بہتر ہے۔
اگر یہ حدیث منسوخ ہوتی تو صحابہ میں سے کوئی قائل نہ ہوتا یا پھر کوئی صحابی وضاحت کرتا۔ ہماری معلومات کے مطابق سلف میں سے کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا بلکہ کئی اس کے قائل ہیں ۔
واللہ اعلم

شبہ۸:

علامہ عبد الحق دہلوی فرماتے ہیں:
ان الـلـه تـعــالـىٰ فضل الذكر على الأنثى في الميراث . (ايضاً)

ازالہ:

اولاً :
عقیقے میں بھی بہتر یہی ہے کہ مذکر و مؤنث میں فرق کیا جائے اور دوسری صحیح حدیث سے فرق نہ کرنے کا جواز بھی ثابت ہو گیا جبکہ میراث کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔
ثانیاً:
میراث سے ورثاء کو حصہ دینا فرض ہے جبکہ عقیقہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے لہٰذا یہاں پر میراث کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل