حسد کی مکمل حقیقت: تعریف، قرآنی آیات، احادیث، اسباب، نقصانات اور روحانی علاج
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

یہ مضمون دل کی ایک نہایت خطرناک اور ہلاکت خیز بیماری حسد کے موضوع پر مرتب کیا گیا ہے۔ حسد ایسی باطنی بیماری ہے جو انسان کے دین، اخلاق، سکونِ قلب اور معاشرتی تعلقات سب کو برباد کر دیتی ہے۔ اس مضمون میں حسد کی تعریف، اس کی حقیقت، حسد اور رشک کا فرق، قرآن و حدیث کی روشنی میں حسد کی مذمت، اس کے اسباب اور ابتدائی نقصانات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ قاری اپنے دل کا محاسبہ کر کے اس مہلک مرض سے نجات حاصل کر سکے۔

حسد: ایک مہلک باطنی بیماری

دل کی بیماریوں میں سے ایک نہایت خطرناک بیماری حسد ہے۔ جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو جائے، اس کی زندگی کبھی خوشگوار نہیں رہتی۔ جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے:

(( ثَلَاثَۃٌ لَا یَہْنَأُ لِصَاحِبِہَا عَیْشٌ : اَلْحِقْدُ ، وَالْحَسَدُ ، وَسُوْئُ الْخُلُقِ))

ترجمہ:
"تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں یہ پائی جائیں، اس کی زندگی خوشگوار نہیں رہتی: بغض، حسد اور بد اخلاقی۔”

حسد صرف ایک اکیلی بیماری نہیں بلکہ یہ کئی دوسری روحانی و نفسیاتی بیماریوں کو جنم دیتی ہے، جیسے: نفرت، بغض، دشمنی، حسرت، اللہ کی قضا و قدر پر ناراضگی، ذہنی دباؤ، غم اور پریشانی وغیرہ۔

حسد کی تعریف

علمائے کرام نے حسد کی تعریف یوں بیان کی ہے:

( تَمَنِّی زَوَالِ النِّعْمَۃِ عَنْ صَاحِبِہَا )

ترجمہ:
"کسی نعمت والے سے اس نعمت کے زائل ہو جانے کی تمنا کرنا۔”

( کُرْہُ النِّعْمَۃِ عِنْدَ الْغَیْرِ وَتَمَنِّی زَوَالِہَا )

ترجمہ:
"دوسرے کے پاس موجود نعمت کو ناپسند کرنا اور اس کے زوال کی خواہش کرنا۔”

حسد کی عملی مثالیں

❀ کسی کے پاس اچھی گھڑی یا عمدہ لباس دیکھ کر یہ چاہنا کہ کاش یہ اس کے پاس نہ رہے۔
❀ کسی کی اچھی سواری دیکھ کر اس کے ختم ہو جانے کی تمنا کرنا۔
❀ کسی طالب علم کی اچھی پوزیشن پر دل میں جلن محسوس کرنا۔
❀ کسی عالم، قاری یا تاجر کی مقبولیت اور ترقی سے ناخوش ہونا۔
❀ کسی خاتون کے حسن و جمال یا زیب و زینت پر دل میں حسد پیدا ہونا۔

ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ حسد دراصل اللہ کی عطا کردہ نعمت کو ناپسند کرنا ہے۔

حسد اور رشک میں فرق

حسد

کسی کے پاس موجود نعمت کے ختم ہو جانے کی خواہش کرنا — چاہے وہ نعمت خود کو ملے یا نہ ملے۔

رشک

کسی کے پاس موجود نعمت کو دیکھ کر یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اسی طرح کی نعمت عطا فرما دے، بغیر اس کے کہ وہ نعمت اس سے زائل ہو۔

رشک کے جائز ہونے کی دلیل

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لَا حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ… ))
صحیح مسلم: 815

ترجمہ:
"رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے:
➊ وہ شخص جسے اللہ نے قرآن عطا کیا، وہ دن اور رات کے اوقات میں اس کے ساتھ قیام کرتا ہے۔
➋ وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ رشک ایک محمود اور جائز عمل ہے، جبکہ حسد ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن مجید میں حسد کی مذمت

آیت

﴿ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ﴾
النساء: 54

ترجمہ:
"کیا یہ لوگ دوسروں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا؟”

آیت

﴿ وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ… ﴾
البقرۃ: 109

ترجمہ:
"اہلِ کتاب میں سے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، محض اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، حالانکہ ان پر حق واضح ہو چکا ہے۔”

احادیث میں حسد کی مذمت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا… ))
صحیح مسلم: 2563

ترجمہ:
"آپس میں حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، جاسوسی نہ کرو، اور اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی رہو۔”

نبی کریم ﷺ نے حسد کو ایسی بیماری قرار دیا جو دین کو جڑ سے کاٹ دیتی ہے۔

حسد: ایک ہلاکت خیز بیماری کے سنگین اثرات

حسد اس قدر خطرناک اور مہلک بیماری ہے کہ بعض اوقات انسان کو بڑے سے بڑے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے، حتیٰ کہ وہ قتل جیسے جرم کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال قابیل اور ہابیل کا واقعہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔

قابیل اور ہابیل کا واقعہ: حسد کا انجام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ﴾
المائدۃ: 27

ترجمہ:
"اور آپ ان کے سامنے آدمؑ کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ بیان کیجئے، جب ان دونوں نے قربانی پیش کی، تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔”

ہابیل نیک اور متقی تھا، اس نے خالص نیت سے قربانی پیش کی، اس لیے قبول ہوئی۔ قابیل کے دل میں حسد پیدا ہوا اور اس نے دھمکی دی:

﴿ لَاَقْتُلَنَّکَ ﴾

ترجمہ:
"میں تجھے ضرور قتل کر ڈالوں گا۔”

ہابیل نے جواب دیا:

﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾
المائدۃ: 27

ترجمہ:
"اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔”

پھر مزید کہا:

﴿ لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ… ﴾
المائدۃ: 28–29

ترجمہ:
"اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے میری طرف ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا بھی گناہ اور اپنا گناہ سمیٹ لے اور جہنمیوں میں شامل ہو جائے، اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔”

لیکن قابیل نے نصیحت قبول نہ کی:

﴿ فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ… ﴾
المائدۃ: 30

ترجمہ:
"آخرکار اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا، پس اس نے اسے قتل کر ڈالا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔”

حسد کے بنیادی اسباب

رزق کی تقسیم پر عدم قناعت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ… ﴾
العنکبوت: 62

ترجمہ:
"اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔”

جو شخص اس تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

تکبر اور خود پسندی

حاسد یہ سمجھتا ہے کہ نعمتوں کا اصل مستحق وہی ہے، اسی لیے دوسروں کی کامیابی اسے برداشت نہیں ہوتی۔

بغض اور دل کی دشمنی

جب دل میں کسی کے خلاف نفرت پیدا ہو جائے تو اس کی خوشی، صحت اور ترقی سب بری لگنے لگتی ہے۔

دوسروں کی برتری برداشت نہ کر پانا

مثلاً کسی طالب علم، تاجر یا خاتون کو اللہ نے کسی صلاحیت میں فوقیت دے دی ہو اور دوسرا شخص کوشش کے باوجود اس مقام تک نہ پہنچ سکے تو حسد جنم لیتا ہے۔

جاہ و منصب کی خواہش

سیاسی، خاندانی یا دفتری میدان میں عہدے اور شہرت کی دوڑ بھی حسد کو جنم دیتی ہے۔ اسی نوعیت کا حسد عبد اللہ بن اُبی اور سردارانِ قریش کو نبی کریم ﷺ سے تھا۔

مال و دولت کی محبت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ﴾
العادیات: 8

ترجمہ:
"اور بے شک انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔”

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَالٍ… ))
صحیح بخاری: 6436، صحیح مسلم: 1048

ترجمہ:
"اگر ابنِ آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا، اور انسان کے پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔”

حسد کے نقصانات

حسد ایک ایسا زہر ہے جو سب سے پہلے خود حاسد کے دل و دماغ کو جلاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اس کے دین، اخلاق اور معاشرتی تعلقات کو تباہ کر دیتا ہے۔ اہلِ علم نے حسد کے بہت سے نقصانات بیان کیے ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

حاسد دراصل اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور تقسیمِ رزق پر ناراضی کا اظہار کرتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔

شاعر کہتا ہے:

أَیَا حَاسِدًا لِیْ عَلٰی نِعْمَتِیْ أَتَدْرِیْ عَلٰی مَنْ أَسَأْتَ الْأَدَب

’’میری نعمت پر حسد کرنے والے! کیا تجھے معلوم ہے تو نے کس کے ساتھ بدتمیزی کی ہے؟‘‘

أَسَأْتَ عَلَی اللّٰہِ فِیْ حُکْمِہٖ لِأَنَّکَ لَمْ تَرْضَ لِیْ مَا وَہَب
’’تو نے اللہ کے فیصلے کی بے ادبی کی، کیونکہ تو اس عطا پر راضی نہ ہوا جو اس نے مجھے دی۔‘‘

دائمی غم، حسرت اور ڈپریشن

حاسد ہمیشہ غمزدہ، پریشان اور جلتا رہتا ہے۔ وہ ہر وقت دوسروں کی نعمتیں دیکھ کر حسرت میں مبتلا رہتا ہے، جس سے اس کا دل کھوکھلا ہو جاتا ہے۔

شاعر کہتا ہے:

اِصْبِرْ عَلٰی کَیْدِ الْحَسُودِ فَإِنَّ صَبْرَکَ قَاتِلُہُ
’’حسد کرنے والے کی چالوں پر صبر کرو، تمہارا صبر ہی اسے ختم کر دے گا۔‘‘

اَلنَّارُ تَأْکُلُ بَعْضَہَا إِنْ لَّمْ تَجِدْ مَا تَأْکُلُہُ
"آگ اگر جلانے کے لیے کچھ نہ پائے تو خود ہی ایک دوسرے کو کھا جاتی ہے۔”

لوگوں کی نظروں میں ذلت

حاسد لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:

اَلْحَسُودُ لَا یَسُودُ
"حسد کرنے والا کبھی سردار نہیں بن سکتا۔”

دشمنی اور رشتوں کی تباہی

حسد دوستیوں کو دشمنی میں بدل دیتا ہے، حتیٰ کہ بھائی بھائی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ ﴾
یوسف: 8

ترجمہ:
"یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں۔”

یہی حسد بعد میں یوسف علیہ السلام کے کنویں میں ڈالے جانے کا سبب بنا۔

دلوں میں نفاق کی پیدائش

حسد منافقت کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن اُبی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں نفاق اس وقت بڑھا جب انہوں نے رسول اکرم ﷺ اور صحابہؓ سے حسد کیا۔

بڑے گناہوں کا سبب

حسد انسان کو قتل جیسے عظیم گناہ تک لے جاتا ہے، جیسا کہ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا۔

نظرِ بد کا سبب

بعض اوقات حسد کی وجہ سے نظرِ بد لگ جاتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( اَلْعَیْنُ حَقٌّ… ))
صحیح مسلم: 2188

ترجمہ:
"نظرِ بد برحق ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جا سکتی ہوتی تو وہ نظرِ بد ہوتی۔”

نظرِ بد سے حفاظت اور علاج

معوذتین پڑھنا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جامع الترمذی: 2059، سنن ابن ماجہ: 3511

ترجمہ:
"نبی ﷺ جنات اور انسانوں کی نظرِ بد سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، پھر جب سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل ہوئیں تو آپ ﷺ انہی کو پڑھنے لگے۔”

دم کی مسنون دعائیں

دعاء :
(( بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ… ))
صحیح مسلم: 2186

ترجمہ:
"میں اللہ کے نام کے ساتھ تم پر دم کرتا ہوں، اللہ تمہیں ہر تکلیف دہ بیماری اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے شفا دے۔”

دعاء :
(( بِسْمِ اللّٰہِ یُبْرِیکَ… ))
صحیح مسلم: 2186

ترجمہ:
"اللہ کے نام کے ساتھ، وہ تمہیں ہر بیماری اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے شفا دے۔”

حاسد کے شر سے بچاؤ کے مؤثر وسائل

حسد چونکہ ایک باطنی اور خطرناک بیماری ہے، اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے نہ صرف اس سے بچنے کی تلقین کی ہے بلکہ حاسد کے شر سے محفوظ رہنے کے واضح طریقے بھی بیان فرمائے ہیں۔ اگر ایک مومن ان وسائل کو اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ حسد اور حاسد کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا

سب سے پہلا اور مؤثر وسیلہ یہ ہے کہ انسان حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ﴾
سورۃ الفلق: 5

ترجمہ:
"اور میں حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرے۔”

یہ آیت واضح دلیل ہے کہ حسد ایک حقیقی شر ہے، جس سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ ضروری ہے۔

تقویٰ اختیار کرنا

تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو انسان کو گناہوں سے روک دے۔ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی خصوصی حفاظت فرماتا ہے اور اسے ہر قسم کے شر سے بچا لیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ پر توکل

اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرنا بھی حاسد کے شر سے بچاؤ کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ﴾
الطلاق: 3
ترجمہ:
"اور جو اللہ پر توکل کرے، تو وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ﴾
التوبۃ: 51
ترجمہ:
"کہہ دیجئے! ہمیں ہرگز کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔”

صبر اختیار کرنا

حاسد کے حسد پر صبر کرنا بہت مؤثر علاج ہے۔ جو شخص صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بلند درجات عطا فرماتا ہے اور حاسد خود اپنے حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

حاسد کے بارے میں زیادہ سوچنے سے اجتناب

بعض لوگ بلاوجہ ہر وقت حاسدوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، جس سے ذہنی پریشانی بڑھتی ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے، صبح و شام معوذتین پڑھے، استغفار کرتا رہے اور اللہ کی حفاظت پر یقین رکھے۔

صدقہ و خیرات کرنا

صدقہ انسان کو بلاؤں اور برے انجام سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کی خصوصی حفاظت فرماتا ہے اور اس کے مال و جان میں برکت عطا کرتا ہے۔

حاسد کے ساتھ حسنِ سلوک

یہ علاج اگرچہ مشکل ہے لیکن نہایت مؤثر ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ﴾
حم السجدۃ: 34
ترجمہ:
"نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں، برائی کو بھلائی سے دفع کرو، تو تم دیکھو گے کہ تمہارا دشمن گہرا دوست بن جائے گا۔”

پھر فرمایا:
﴿ وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ﴾
حم السجدۃ: 35
ترجمہ:
"یہ صفت صرف صبر کرنے والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔”

نعمتوں کو چھپانا

ہر نعمت والا شخص حسد کا نشانہ بن سکتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ ہر نعمت ہر ایک کے سامنے بیان کی جائے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
﴿ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاکَ عَلٰی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا ﴾
یوسف: 5
ترجمہ:
"اے میرے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کہیں وہ تمہارے خلاف سازش نہ کر لیں۔”

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( اِسْتَعِیْنُوْا عَلٰی إِنْجَاحِ الْحَوَائِجِ بِالْکِتْمَانِ ))
السلسلۃ الصحیحۃ: 1453
ترجمہ:
"اپنی ضروریات کو چھپا کر پورا کرنے میں مدد حاصل کرو، کیونکہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔”

ایمان اور حسد ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(( لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ: الْإِیْمَانُ وَالْحَسَدُ ))
صحیح الجامع: 7620
ترجمہ:
"کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد اکٹھے نہیں ہو سکتے۔”

نتیجہ

اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں کو حسد، بغض اور نفرت سے پاک کرنا ہوگا۔ ایک سچا مومن وہی ہے جس کا دل صاف، زبان سچی اور نیت خالص ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو حسد سے پاک فرمائے اور ہمیں باہمی محبت اور اخوت عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے