حرمت بیت اللہ، میدان جہاد سے فرار، طہارت کی پابندی، مردوں پر سونا و ریشم کی حرمت اور دین کا علم چھپانے کے سنگین انجام
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرنا

بیت اللہ زمین پر اللہ کا پہلا گھر ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران)
یعنی: اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر جو تمام انسانوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں واقع ہے۔ یہ گھر دنیا بھر کے لیے برکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ اس میں روشن نشانیاں موجود ہیں جیسے مقام ابراہیم۔ اور جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے اسے امن حاصل ہوتا ہے۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کی حدود میں، حتیٰ کہ دشمن خون کے پیاسے ہونے کے باوجود، ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ سورہ قریش میں اہلِ مکہ کے اس امن و سکون کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

بیت اللہ میں الحاد کا انجام

جو کوئی شخص بیت اللہ میں الحاد کرے، چاہے وہ کفر و شرک کی صورت میں ہو یا فساد اور قتل و غارت کے ذریعے، اس کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج: 25)
یعنی: جو ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔

فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:
’’جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اسی دن مکہ کو حرمت والا قرار دیا، اور یہ حرمت قیامت تک باقی رہے گی۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے یہاں جنگ حلال نہ تھی، مجھے بھی صرف ایک لمحے کے لیے اجازت دی گئی۔ لہٰذا یہ شہر اللہ کے حکم سے قیامت تک حرام ہی رہے گا۔‘‘
(بخاری: 1587، مسلم: 1353)

میدانِ جہاد سے فرار ہونا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (الانفال: 16)
یعنی: جو شخص میدان جہاد میں دشمن کے سامنے پیٹھ پھیرے، مگر وہ کسی جنگی چال کے تحت یا اپنی جماعت کی طرف واپس آ رہا ہو تو مستثنیٰ ہے، ورنہ وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔

جہاد سے صرف دو صورتوں میں پیچھے ہٹنا جائز ہے:
◈ جنگی چال یا حکمت عملی کے تحت
◈ اپنی جماعت سے دوبارہ جُڑنے کے لیے

بزدلی سے فرار ایک عظیم جرم ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے کہ اگر ایک سو مسلمان ہوں تو وہ دو سو کفار کے مقابلے میں فرار اختیار نہ کریں۔
(بخاری: 4652)

رسول اللہ ﷺ کا فرمان

رسول اللہ ﷺ نے اس گناہ کو سات ہلاک کر دینے والے گناہوں میں شمار فرمایا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ وہ کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
➊ اللہ کے ساتھ شرک کرنا
➋ جادو
➌ ناحق قتل
➍ سود کھانا
➎ یتیم کا مال کھانا
➏ میدان جنگ سے فرار
➐ نیک عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا

(بخاری: 2766، مسلم: 89)

پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا دو قبروں کے پاس سے گزر ہوا تو فرمایا:
’’ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔‘‘
(بخاری: 216، مسلم: 292)

آج کل کے دور میں:
◈ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے لیے دیواروں پر پیالہ نما لیٹرینیں استعمال کی جاتی ہیں
◈ پردے کا خیال نہیں رکھا جاتا
◈ صفائی کے بعد ستر ڈھانپنے سے پہلے طہارت مکمل نہیں کی جاتی
◈ نہ مٹی، نہ پانی استعمال کیا جاتا ہے
◈ کچھ لوگ جان بوجھ کر ایسی جگہ پیشاب کرتے ہیں جہاں چھینٹے جسم اور کپڑوں کو ناپاک کرتے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اکثر قبروں کا عذاب پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
(ابن ماجہ: 348)

سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا پینا، اور مردوں کے لیے سونا و ریشم پہننا

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت:

’’جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے، وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔‘‘
(بخاری: 5634، مسلم: 2065)

یہ حکم:
◈ تمام کھانے کے برتنوں
◈ چمچوں، چھریوں، کانٹوں
◈ ڈشوں اور پلیٹوں پر لاگو ہوتا ہے

ریشم پہننے کی حرمت

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت:
’’دنیا میں وہی شخص ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
(بخاری: 5835، مسلم: 2069)

مردوں پر سونا حرام ہے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، تو اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا:
’’کیا تم آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں پہنو گے؟‘‘
بعد میں لوگوں نے اس شخص سے کہا: انگوٹھی اٹھا لو، اس سے کوئی فائدہ اٹھا لو۔
اس نے کہا: ’’اللہ کی قسم! جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے پھینک دیا، میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔‘‘
(مسلم: 2090)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جو اپنے دوست کو آگ کا حلقہ پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا حلقہ پہنا دے۔ آگ کا طوق پہنانا ہو تو سونے کا طوق پہنا دے۔ آگ کے کنگن پہنانا چاہے تو سونے کے کنگن پہنا دے۔ البتہ چاندی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(ابو داؤد: 4236)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا لے کر فرمایا:
’’یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں پر حلال ہیں۔‘‘
(ابن ماجہ: 3595)

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سونا، چاندی، ریشم اور دیباج کفار کے لیے دنیا میں ہیں، تمہارے لیے آخرت میں ہوں گے۔‘‘
(بخاری: 5831، مسلم: 2067)

دنیا کے فائدے کے لیے دینی علم حاصل کرنا اور اسے چھپانا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ (البقرہ: 159)
یعنی: جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، باوجود اس کے کہ ہم نے اسے کتاب میں واضح کر دیا ہے، ان پر اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ﴿١٧٥﴾ (البقرہ: 174-175)
’’بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں۔ یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا۔ نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے۔ یہ لوگ آگ کا عذاب کیسے برداشت کریں گے؟۔‘‘

علم چھپانے کی سزا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس سے ایسی بات پوچھی جائے جس کا اسے علم ہو اور وہ چھپا لے، تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔‘‘
(ابو داؤد: 3658)

علم دنیا کے لیے حاصل کرنا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص ایسا علم حاصل کرے جس سے اللہ کی رضا مقصود ہو، لیکن وہ اسے دنیاوی فائدہ کے لیے حاصل کرے، تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
(ابن ماجہ: 252)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’علم اس نیت سے مت حاصل کرو کہ علماء سے فخر کرو، یا جاہلوں سے جھگڑا کرو یا مجلسوں میں نمایاں نظر آؤ۔ جو ایسا کرے، اس کے لیے آگ ہے۔‘‘
(ابن ماجہ: 254، قال الشيخ الألباني: صحيح، وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)

علم نافع کی دعا

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت:

رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا‘‘۔ (مسلم: 2722)
’’اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ چاہتا ہوں جو نفع نہ دے۔ اور ایسے دل سے پناہ چاہتا ہوں جو ڈرتا نہ ہو اور ایسی دعا سے پناہ چاہتا ہوں جو قبول نہ ہونی ہو‘‘

علم پر عمل نہ کرنے کا انجام

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ ان کے گرد ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔
جہنمی اس سے پوچھیں گے: تم دوسروں کو نیکی کا حکم اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟
وہ کہے گا: ہاں، میں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا، اور برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘
(بخاری: 3267، مسلم: 2989)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1