حدیث کی حجیت اور اس پر عمل کی اہمیت
تحریر: تنویر حسین شاہ ہزاروی

شذرات الذهب

امام الحکم بن عتیبہ رحمہ اللہ (المتوفی ۱۱۵ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ليس أحد من خلق الله إلا يؤخذ من قوله ويترك إلا النبى صلى الله عليه وسلم‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی و روحی) کے علاوہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کی بات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی (ایسی بابرکت اور پاکیزہ) شخصیت ہیں جن کی ہر بات لی جائے گی ۔

(جامع بیان العلم و فضلہ ۹۱/۲ ، دوسرا نسخه ۱۱۲/۲، تیسر انسخه ۸۱/۲ اور اسناده حسن لذاته)

امام الائمه الحافظ الکبیرمحمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشاپوری (المتوفی ۳۱۱ ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ليس لأحد مع النبى صلى الله عليه وسلم قول إذا صد الخبر عنه‘‘

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث آجائے گی اس کے مقابلے میں کسی بھی شخص کی کوئی بات قابل التفات واتباع نہیں ہوگی ۔

(معرفہ علوم الحدیث للحاکم النیساپوری ص ۸۴ ، دوسر انسخ ص ۲۸۶ : ۹۰ و اسنادہ صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ نے نبی صلى الله عليه وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا:

کیا آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے (تعجب کرتے ہوئے) فرمایا:

سبحان اللہ! میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ایک (صحیح) حدیث بیان کروں اور اس پر عمل نہ کروں ؟ اگر کسی وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (صحیح) حدیث معلوم ہو جائے اور میں اس پر عمل نہ کروں تو سب گواہ رہو کہ (اس وقت) میری عقل ختم ہو چکی ہوگی (آداب الشافعی ومناقبه لا بن ابی حاتم ص ۵۰ وسنده صحیح)
یعنی امام شافعی رحم اللہ کے نزدیک صحیح (و غیر معارض) حدیث پر عمل نہ کرنے والا شخص پاگل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے