حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ! اشکالات اور اس کا ازالہ
تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظ اللہ

ائمہ مسلمین کی متفقہ تصریحات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی ہے، جو قرآن کی مراد اور تفسیر ہے۔ قرآن و حدیث ہرگز باہم معارض نہیں ہیں، لہٰذا حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
❀ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ألا إني أوتيت الكتاب، ومثله معه ألا یوشک رجل شبعان على أريكته يقول: علیکم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه، ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي، ولا كل ذي ناب من السبع، ولا لقطة معاھد .»
”خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے، ساتھ میں اس کی مثل (حدیث) بھی دی گئی ہے۔ خبردار! عنقریب ایک پیٹ بھرا آدمی تکیے پر ٹیک لگائے کہے گا: ”اس قرآن کو لازم پکڑ لو تم اس میں جسے حلال پاؤ، اسے حلال سمجھو اور جسے حرام پاؤ، اسے حرام سمجھو۔“ خبردار! تمہارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت اور کچلی والے درندے حلال نہیں ہیں اور نہ معاہد کی گری ہوئی چیز کو استعمال کرنا جائز ہے۔“ [سنن أبى داود: 4604، وسنده صحيح، وأخرجه الإمام أحمد 2/4 13] ، [والتر مذي: 2664، وقال: حسن غريب، وابن ماجه: 12، وسنده صحيح]
امام حا کم رحمہ اللہ (109/1) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
«فى الحديث دليل على أنه لا حاجة بالحديث أن يعرض على الكتاب وأنه مهما ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان حجة بنفسه .»
اس حدیث میں دلیل ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ بذات خودحجت ہے۔“
[معالم السنن: 299/4، تفسير القرطبي: 38/1]
◈ قوام السنہ امام ابوالقاسم اصبہانی رحمہ اللہ (535ھ) فرماتے ہیں:
«في هذا دليل على ان أ مره صلى الله عليه وسلم إذا اخبر به واحد ثقة، لزم اتباعه، ووقع العلم به، وإن لم يوجد له فى كتاب الله نص حکم»
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ جب کوئی ایک ثقہ راوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی خبر دے، تو اس کا اتباع کرنا واجب ہے، اسے علم (ضروری) کہا جائے گا، اگرچہ کسی کو اس کی کتاب اللہ میں کوئی نص بھی نہ ملے۔“
[الحجة فى بيان المحجة: 375/1-376]
◈ علامه امیر صنعانی رحمہ اللہ (83ا1ھ) فرماتے ہیں:
«ما أحسن ما قال بعض العلماء أن حديث العرض يرد نفسه»
«فإذا عرضناه على کتاب الله فما وجدنا فيه إلاخلاف معناًه قال الله: وما آتام الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا (الحشر: 7) ولم نجد فيه إذا قال لكم الرسول قولا او سمعتم عنه حديثا فاعرضوه على كتاب الله فقد رد الحديث نفسه۔»
بعض علما نے کیا خوب کہا ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے والی حدیث اپنا رد خود کرتی ہے۔ کیونکہ جب ہم اس حدیث کو قرآن پر پیش کرتے ہیں، تو ہم (قرآن میں) اس کی مخالفت پاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوہ ومانهاكم عنه فانتهوا» [الحشر: 7]
”جو تمہیں رسول دے دیں، اسے لے لو اور جس سے منع کر دیں، اس سے باز آ جاؤ“ اس آیت میں یہ نہیں کہ جب تمہیں رسول کوئی بات کہیں یا تم ان سے کوئی حدیث سنو تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو، یوں اس حدیث نے اپنا رد خود کر دیا۔“
[التنوير شرح الجامع الصغير: 469/2]
◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238ھ) فرماتے ہیں:
«من بلغه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر یقر بصحته ثم رده بغير تقية فهو کافر.»
”جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا علم ہو اور وہ اس کو صحیح بھی سمجھتا ہو، پھر اسے بغیر تاویل کیے واضح رد کر دے، تو وہ کافر ہے۔“
[الإحكام لابن حزم: 99/1]
◈ امام آجری رحمہ اللہ (360) فرماتے ہیں:
«ينبغي لأهل العلم والعقل إذاسمعوا قائلا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شيء قد ثبت عند العلماء، فعارض إنسان جاهل فقال: لا أقبل إلا ما كان فى كتاب الله تعالى، قيل له: أنت رجل شوء، وأنت ممن یحذرناک النبى صلى الله عليه وسلم، وحذر منک العلماء .»
”اہل علم وعقل کو چاہیے کہ کسی سے صحیح حدیث بیان کی جائے اور وہ جاہل کہے کہ میں صرف قرآن کو مانتا ہوں، تو اسے کہیں کہ تم برے ہو اور تیرے جیسے جاہلوں سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علما نے خبر دار کیا ہے۔“
[الشريعة: 410/1]
◈ علامہ ابوبکر جصاص رحمہ اللہ (370ھ) سورت نساء (65) کے تحت لکھتے ہیں:
«في هيير الآية دلالة على ان من رد شيئا من أوامر الله تعالى أو أوامر رسوله صلى الله عليه وسلم فهو خارج من الإسلام سواء رده من جهة الشك فيه أو من جهة ترك القبول والامتناع من التسليم .»
”یہ آیت دلیل ہے کہ جس نے الله تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم رد کیا، وہ اسلام سے خارج ہے، خواہ اس حکم میں شک کرتے ہوئے رد کیا یا اسے قبول اور تسلیم نہ کرتے ہوئے“ [أحكام القرآن: 268/2]
◈ علامہ عبد القاہر بغدادی رحمہ اللہ (429ھ) لکھتے ہیں:
«من رد ځجة القرآن والسنة فهو الكافر .»
”جس نے قرآن وحدیث کی حجت کو رد کیا، وہ کافر ہے۔“
[أصول الدين، ص 162 – 163]
◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (452ھ) فرماتے ہیں:
«لو ان امر قال: لا ناخذ إلا ما وجدنا فى القرآن لكان كافرا بإ جماع الأمة .»
اگر کوئی شخص کہے کہ میں (نماز کے بارے میں) وہی بات مانوں گا، جو صرف قرآن میں مذکور ہے، تو اس کے کافر ہونے پر امت کا ا جماع ہے۔“
[الإحكام فى أصول الأحكام: 80/2]
◈ علامہ ابن الوز یر یمنی رحمہ اللہ (840ھ) فرماتے ہیں:
«ان التکذيب لحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم مع العلم انه حدیثہ کفر صريح .»
”جانتے بوجھتے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو جانا صریح کفر ہے۔“ ببب
[العواصم من القواصم: 374/2]
◈ نیز فرماتے ہیں:
«التفسير النبوي وهو مقبول بالنص والإجماع .»
”قرآنی نص اور اجماع ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر قبول ہے۔“
[إيثار الحق على الخلق، ص 152]
اس کے باوجود منکرین حدیث قرآن و حدیث کو ٹکرانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
اس حوالہ سے وہ دلائل بھی پیش کرتے ہیں، جن کا جائزہ ملاحظه فرمائیں؛
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله تعالیٰ نے فرمایا:
«إنهاستاتيکم عني أحاديث مختلفه فما أتاكم موافقا لكتاب الله وستني فهو ممي وما أتاكم مخالفا كتاب الله ولسنتی فليس مني.»
”عنقریب میری طرف منسوب مختلف احادیث آپ تک پہنچیں گی، لہٰذا جو حدیث کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو، وہ میری ہی حدیث ہو گی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہو، وہ میری حدیث نہیں ہو سکتی۔“
[الكامل لابن عدي: 5 /106، سنن الدارقطني: 208/4]
سند باطل ہے۔
صالح بن موسی ”ضعیف ومتروک“ ہے۔
◈ الضعفاء الکبیر للعقیلی (32/1) والی سند باطل ہے۔
➊ اشعث بن براز ”ضعیف، متروک ومنکر الحدیث“ ہے۔
➋ قتادہ کا عنعنہ ہے۔
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ اور حافظ ذہنی رحمہ اللہ (تاریخ الاسلام: 4/ 311) نے اس روایت کو ”منکر“ قرار دیا ہے۔
◈ المدخل الى علم السنن للبیہقی (1/ 139) کی سند متن میں اضطراب ہے، نیز :
اس کی سند مرسل ہے، اس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر وہم ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
[التاريخ الكبير: 473/3]
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فى صحة هذا الخبر مقال، لم نر فى شرق الأرض ولا غربها أحدا يعرف خبر ابن أبى ذئب من غير رواية يحيى ابن آدم، ولا رأيت أحدا من علماء الحدیث يثبث ھذا عن أبى هريرة .»
”اس حدیث کی صحت میں کلام ہے، ہم مشرق و مغرب میں کسی فرد بشر کو نہیں جانتے، جو جانتا ہو کہ ابن ابی ذئب کی اس روایت کو یحیی بن آدم کے علاوہ کسی نے بیان کیا ہو۔ محدثین میں سے میں کسی کو نہیں جانتا، جو اس حدیث کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت سمجھتا ہو“
[المدخل إلى علم السنن البيهقي: 138/1، وسنده صحيح]
◈ المدخل للبیہقی (140/1) والی سند بھی ضعیف ومضطرب ہے۔
ابومعشر نجیح بن عبدالرحٰمن ”ضعیف“ ہے
◈ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
«فى هذہ الأحاډيث لا يليق بكلام النبى صلى الله عليه وسلم ولا يشبه المعقول، وفي روايته ضعف .»
”ان احادیث میں ایسا انداز کلام ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نہیں، یہ عقل کے بھی موافق نہیں، نیز اس روایت میں ضعف ہے۔“
[المدخل إلى علم السنن: 140/1]
——————

❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إنها تکون بعدي رواة يروون عنی الحدیث فاعرضوا حديثهم على القرآن فما وافق القرآن فخذوا به وما لم يوافق القرآن فلا تأخذوا به .»
”میرے بعد کچھ لوگ میری طرف منسو ب احادیث بیان کریں گے، لہٰذا آپ ان روایات کو قرآن مجید پر پیش کریں، جو قرآن کریم کے موافق ہوں، انہیں لے لیں اور جو مخالف ہوں، انہیں ترک کردیں۔“
[سنن الدارقطني: 4476، فضائل القرآن للمستغفري: 353، تاريخ دمشق لابن عساكر: 77/55]
سند ضعیف ومرسل ہے۔
یہ روایت ابوبکر بن عياش کا وہم ہے۔
◈ اس کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الصواب فى أمره مجانبه ما علم أنه أخطأ فيه والإحتجاج بما يرويه سواء وافق الثقات أو خالفهم لأنه داخل فى جملة أهل العدالة، ومن صحت عدالته لم يستحق القدح ولا الجرح إلا بعد زوال العدالة عنه بأحد أسباب الجرح، وهكذا حکم كل محدث ثقة صحت عدالته وتبين خطاؤه .»
”ابوبکر بن عياش کے معاملے میں درست بات یہ ہے کہ ان کی جن روایات میں غلطی معلوم ہو جائے، ان سے اجتناب کیا جائے اور ان کی باقی روایات خواہ وہ ثقافت کے موافق ہوں یا مخالف، ان سے حجت لی جائے، کیونکہ وہ بھی اہل عدالت میں شامل ہیں۔ جس راوی کی عدالت ثابت ہو جائے، وہ جرح و قدح کا مستحق نہیں ہے، مگر جب اس سے کسی سبب جرح کے ساتھ عدالت زائل ہو جائے۔ یہی حکم ہر اس محدث کا ہے، جس کی عدالت ثابت ہو اور اس کی خط واضح ہو جائے۔ [الثقات: 670/7]
محدثین کرام اور ائمہ دین نے ابوبکر بن عیاش کی جس روایت کو خطا اور وہم قرار دیا ہے، اس سے اجتناب کیا جائے گا، مذکورہ روایت کو موصول بیان کرنا خطا اور وہم ہے، درست یہ ہے کہ یہ علی بن حسین کی مرسل ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے علی بن حسین کی مرسل قرار دیا ہے۔
◈ حافظ جورقانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”منکر و مرسل“ قرار دیا ہے۔
[الأباطيل والمناكير: 475/1]
المدخل الى علم اللسن للبیہقی (238) اور الاحکام لابن حزم (6/2 7) والی سند جھوٹی ہے۔
➊ حسین بن عبد الله بن ضمیرۃ متروک و کذاب ہے۔
➋ بشر بن نمیر قشیری ضعیف، متروک و منکر الحدیث ہے۔
➌ عبداللہ بن ضمیرہ کی توثیق معلوم نہیں ہو سکی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا إسناد ضعيف لايحتج بمثله .»
”سند ضعیف ہے، ایسی سند سے حجت نہیں لی جا سکتی۔“
[المدخل إلى علم السنن، تحت الرقم: 238]
——————

❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا بلغكم عيني حيث منكر فاعرضوه على كتاب الله، فما وافق كتاب الله فهو مني وأنا قلته، وما خالف كتاب الله فليس مني ولم أقله .»
”جب آپ کو میری طرف سے غیر معروف حدیث پہنچے، تو اسے قرآن پر پیش کریں، جو حدیث قرآن کے موافق ہو، وہ میری حدیث ہے اور میں نے کہی ہے اور جو قرآن کریم کے مخالف ہو، وہ میری حدیث نہیں اور نہ میں نے کہی ہے۔“
[كتاب بغداد لابن أبى طاهر، ص 47]
سند باطل ہے۔
➊ صاحب کتاب کی توثیق نہیں۔
➋ مطہر بابی کے حالات نہیں ملے۔
➌ ابوالزبیر کا عنعنہ ہے۔
——————

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا:
«إنه سيفشوا عني أحادیث فما أتاكم من حديثي فاقرؤوا كتاب الله، واعتبروه فما وافق كتاب الله فانا قلته، وما لم يوافق كتاب اللہ فلم أقله .»
”عنقریب مجھ سے منسو ب بہت سی احادیث پھیل جائیں گی، چنانچہ آپ کو جو بھی حدیث معلوم ہو، تو آپ قرآن پڑھیں اور اسے پرکھیں، جو کتاب اللہ کے موافق ہو، وہ میری حدیث ہو گی اور جو کتاب اللہ کے موافق نہ ہو، تو میری حدیث نہیں ہو گی۔
[المعجم الكبير للطبراني: 244/12]
سند ضعیف ہے۔
➊ وضین بن عطاء سیءالحفظ ہے۔
➋ ابوحاضر مجہول ہے۔ اسے امام ابوحاتم رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل: 362/9) اور حافظ ذہنی رحمہ اللہ ميزان الاعتدال: [512/4] نے ”مجہول“ کہا ہے۔
➌ زبیر بن محمد بن زبیر رہاوی مجہول الحال ہے، اسے صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے ”الثقات: 8/ 725“ میں ذکر کیا ہے۔
◈ اس کی ایک اور سند بھی ہے۔
[الإبانة الكبرى لابن بطة: 102]
سند موضوع ہے۔
➊ عثمان بن عبدالرحمن و قاصی بالاتفاق ”ضعيف ومتروک“ ہے۔
◈ حافظ ذہنبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«متفق على تركه .»
”اس کے متروک ہونے پر اجماع ہے۔“
[تاريخ الإسلام: 208/1، سير أعلام النبلاء: 594/1]
➋ زہری کا عنعنہ ہے۔
——————

❀ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ألا إن رحی الإسلام دائرة، قال: فكيف نصنع يا رسول الله قال: اعرضوا حدیثي على الكتاب، فما وافقه فهو مني، وأنا قلته .»
”خبردار ! اسلام کی چکی گھومنے والی ہے، صحابہ نے عرض کیا: الله کے رسول ! ہم کیا کریں؟ فرمایا: میری حدیث کو قرآن پر پیش کریں، جو اس کے موافق ہو، وہ میری طرف سے ہو گی اور اسے میں نے کہا ہو گا۔“
[المعجم الكبير للطبراني: 97/2]
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ ابوکامل یزید بن ربیعہ مشقی ضعیف و مختلط ہے۔
◈ حافظ جوز جانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أحاديثه أباطيل أخاف أن تكون موضوع»
اس کی احادیث باطل ہیں، خدشہ ہے کہ من گھڑت بھی ہوں۔“
[أحوال الرجال: 284]
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ جمال فرماتے ہیں:
«ضعيف الحديث، منكر الحديث، وهى الحديث، وفي روايته عن أبى الأشعت عن ثوبان تخليظ كثير»
”یہ ضعيف الحديث منکر الحدیث اور ”واہی الحدیث“ ہے۔ اس نے جو روایت ابوالاشعث عن ثو بان کی سند سے بیان کی ہے، اس میں بہت زیادہ تخلیط اضطراب) ہے۔“
[الجرح والتعديل: 261/9]
اسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”متروک“ کہا ہے۔
[سؤالات البرقاني: 548]
➋ احمد بن محمد بن یحی بن حمزه حضرمی ضعیف ہے۔
——————

ابوجعفر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الحديث سيفشو عني فما أتاکم عني يوافق القرآن فهو عني وما أتاكم عني يخالف القرآن فليس عني۔
”عنقریب مجھ سے منسو ب احادیث عام ہو جائیں گی، لہٰذا مجھ سے منسو ب جو حدیث قرآن کے موافق ہو، تو وہ میری حدیث ہوگی اور جو قرآن کے مخالف ہو، وہ میری حدیث نہیں ہو گی۔“
[معرفة السنن والآثار 1/ 117:، الرد على سير الأوزاعي، ص 25]
سند ضعیف ہے۔
➊ ابوجعفر باقر رحمہ اللہ تابعی ہیں، براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا روایت مرسل ہے۔
➋ قاضی ابو یوسف ضعیف ہے۔
——————

✿ عبدالله بن جعفر ہاشمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إنه سيكثر على من بعدي كما كثر على من قبلي من الأنبياء فما حدثتم عني بحديث فاعتبروه پكتاب الله، فما وافق كتاب الله فهو من حديثي، وإنما هدى الله نبيه بكتابه، وما لم يوافق كتاب الله فليس من حديثي .»
جس طرح مجھ سے پہلے انبیاء پر لوگوں نے کثرت سے جھوٹ باندھے، اسی طرح مجھ پر بھی بکثرت جھوٹ باندھے جائیں گے، لہٰذا جب آپ کو مجھ سے منسو ب حدیث بیان کی جائے، تو اسے قرآن پر پیش کریں، موافق ہو، وہ میری حدیث ہو گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی قرآن مجید کے ذریعے رہنمائی کی ہے اور جو کتاب اللہ کے موافق نہ ہو، وہ میری حدیث نہیں“
[مسند الروياني: 1333]
سند جھوٹی ہے۔
➊ عبداللہ بن مسور کذاب ہے۔
➋ عبد الله بن مسور کا سیدنا عبد الله بن جعفر ہاشمی رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں۔
——————

اصبغ بن محمد بن ابی منصور کو یہ بات بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الحث على ثلاث؛ فأيما حديث بلغكم عني تعرفونه بكتاب الله فاقبلوه، وأيما حديث بلغكم عني لا تجدون فى القرآن موضعه، ولا تعرفون موضعه فلا تقبلوه، وأيما حديث بلغكم عني تقشعر منه جلودكم، وتشمئز منه قلو بكم، وتجدون فى القرآن خلافه فردوه .»
حدیث تین طرح کی ہے: مجھ سے منسو ب جو حدیث آپ تک پہنچے اور آپ اسے کتاب اللہ (کی موافقت) کے ذریعہ پہچان لیں، تو اسے قبول کرلیں۔ مجھ سے منسو ب جو حدیث آپ تک پہنچے اور آپ اسے کتاب اللہ کے موافق نہ پائیں، تو اسے قبول مت کریں۔ مجھ سے منسو ب جو حدیث
آپ تک پہنچے، اسے سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، دل ڈر جائیں اور قرآن میں اس کے خلاف کوئی چیز ہو، تو اسے رد کر دیں۔
[المدخل إلى علم السنن للبيهقي: 236]
سند ضعیف ہے۔
➊ اصبغ بن محمد بن ابی منصور کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➋ اصبغ کو یہ بات کس نے پہنچائی، معلوم نہیں۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذه رواية منقطعة عن رجل مجهول .»
”یہ روایت مجہول شخص سے منقطع ہے۔“
——————

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
«إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فلم تجدوا تضديقه فى القرآن ولم يكن حسنا فى أخلاق الرجال فانا من الكاذبين .»
”جب میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث پیش کروں، جس کی تصدیق آپ قرآن میں نہ پائیں اور نہ وہ حسن اخلاق کے بارے میں ہو تو تب میں جھوٹوں میں سے ہوں گا۔“
[الأمالي فى آثار الصحابة لعبد الرزاق: 193، المدخل للبيهقي: 255]
سند ضعیف ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا عنعنہ ہے۔
✿ اس کی دوسری سند بھی ہے۔
[المطالب العالية لابن حجر: 687/12]
سند ضعیف ہے۔
ابواسحاق سبیعی مدلس ہیں، ان کا ارقم بن شرحبیل سے سماع نہیں ہے۔
✿ سنن دارمی (641) والی روایت بے سند ہے۔
——————

✿ حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إني لا أدري لعلكم أن تقولوا عني بعدي مالم اقل ما حدثتم عني مما يوافق القرآن فصدقوا به وما حدثتم عني مما لا يوافق القرآن فلا تصدقوا به وما لرسول الله صلى الله عليه وسلم حتي يقول ما لا يوافق القرآن بالقرآن هداه الله .»
”مجھے نہیں معلوم کہ شاید آپ میرے بعد میری طرف منسو ب کر کے وہ کہیں، جو میں نے نہ کہا ہو، لہٰذا جو آپ کو قرآن کے موافق حدیث بیان کی جائے، اس کی تصدیق کریں اور جو قرآن کے مخالف حدیث بیان کی جائے، اسے رد کر دیں، اللہ کے رسول سے قرآن کے مخالف کہنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ قرآن کے ذریعے ہی اللہ نے رسول کی رہنمائی فرمائی ہے۔“
[الإحكام فى أصول الأحكام لابن حزم: 77/2]
سند ضعیف ہے۔
➊ حسن بصری رحمہ اللہ مرسل بیان کر رہے ہیں۔
➋ اس میں ایک مبہم و نا معلوم راوی ہے۔
✿ فضائل القرآن اللمستغفری (354) والی سندھی سخت ضعیف ومرسل ہے۔
➊ حسن بصری براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔
➋ صالح بن بشری مری ”ضعیف و متروک الحدیث“ ہے۔
اہل علم کی حقیق:۔
✿ امام عقیلی رحمہ اللہ برائے (322ھ) فرماتے ہیں:
«ليس لهذا الفظ عن النبى صلى الله عليه وسلم إسناد یصح .»
ان الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سند ثابت نہیں۔“
[الضعفاء الكبير: 32/1]
✿ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
«إنه حديث باطل لا أصل له .»
”یہ حدیث باطل اور بے اصل ہے۔“
[معالم السنن: 299/4]
✿ حافظ بیہقی رحمہ اللہ (458ھ) فرماتے ہیں:
«قد روی من أوجه أځرکلها ضعيف .»
”یہ روایت دیگر سندوں سے مروی ہے، سب کی سب ضعیف ہیں“
[معرفة السنن والآثار: 117/1]
✿ نیز فرماتے ہیں:
«الحديث الذى روي فى عرض الحدیث على القرآن باطل لا يصح، وهو ينعكس على نفسه بالبطلان، فليس فى القرآن دلالة على عرض الحدیث على القرآن .»
”حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کے بارے میں جو حدیث بیان کی گئی ہے، وہ
جھوٹی اور غیر ثابت ہے، وہ تو الٹا اپنے آپ کو جھٹلاتی ہے، کیونکہ قرآن میں حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔“
[دلائل النبوة: 27/1]
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
«هذه الألفاظ لا تصح عنه صلى الله عليه وسلم عند أهل العلم بصحيح النقل من سقيمه .»
”صحیحح و ضعیف میں فرق کرنے والے اہل علم و نقل کے ہاں یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔“
[جامع بيان العلم و فضله: 1189/2]
✿ اس حدیث کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ”الموضوعات“ میں ذکر کیا ہے۔
[الموضوعات: 258/1]
✿ علامہ صغانی حنفی رحمہ اللہ نے ”موضوع“ قرار دیا ہے۔
[الموضوعات: 135]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
«لم يصح فى هذا شيء۔»
اس بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں۔
[تاريخ الإسلام: 311/4]
علامه زکشی رحمہ اللہ (794ھ) فرماتے ہیں:
«يروى من طرق كلها ضعيفة .»
یہ روایت کئی سندوں سے مروی ہے، سب کی سب ضعیف ہیں۔“
[المعتبر فى تخريج أحا ديث المنها ج والمختصر، ص 175]
✿ علام محمد بن یعقو ب فیروز آبادی رحمہ اللہ (816ھ) فرماتے ہیں:
«لم يثبت فيه شيء وهذا الحديث من اوضع الموضوعات .»
”اس بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں، یہ موضوع ترین روایت ہے۔“
[سفر السعادة، ص 279]
✿ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (906ھ) فرماتے ہیں:
«قد شئل عن هذا الحدیث، فقال: إنه جاء من طرق لا تخلو من مقال .»
”ہمارے شیخ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا، فرمایا: یہ ایسی سندوں سے مروی ہے، جو کلام (ضعف) سے خالی نہیں۔“
[المقاصد الحسنة، ص 83]
✿ علامہ محمد طا ہر پٹنی رحمہ اللہ (986ھ) فرماتے ہیں:
«باطل وضعته الزنادقه .»
”باطل ہے، اسے زنادقہ نے گھڑا ہے۔“
[مجمع بحار الأنوار: 297/5]
علامہ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ (1052ھ) فرماتے ہیں:
«هذا الحدیث موضوع عند المحدثين .»
”محدثین کے ہاں یہ حد یث من گھڑت ہے۔“
[لمعات التنقيح: 480/1]
✿ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (352ھ) فرماتے ہیں:
سب سے پہلے ہم تمہاری ذکر کردہ اسی حدیث کو قرآن پر پیش کرتے ہیں، جب ہم نے اسے قرآن پر پیش کیا تو دیکھا کہ قرآن اس کی مخالفت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا واتقوا الله إن الله شديد العقاب» [الحشر: 7]
تمہیں جو چیز رسول دیں، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں، اس سے رک جاؤ، اللہ سے ڈر جاو، یقیناً اللہ دردناک عذاب دینے والا ہے“۔ نیز فرمایا۔ «من يطع الرسول فقد أطاع الله ومن تولي فما أرسلناك عليهم حفيظا» [النساء: 80]
”جس نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو اس سے پھر گیا، تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان نہیں بنایا۔“ مزید فرمایا: «إنا أنزلنا إليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما أراك الله ولا تكن الخائيمن خصيما» [النساء: 105]
’’ ہم نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے آپ کو علم دیا ہے اور خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑا نہ کریں۔“
[الإحكام: 79/2]
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (493ھ) فرماتے ہیں:
«قد عارض هذا الحديث قوم من أهل العلم فقالوا: نحن»
«نعرض ھذا الحديث على كتاب الله قبل كل شيء نعتمد على ذلك، قالوا: فلما عرضناه على كتاب اللہ عز وجل وجدناه مخالفا كتاب الله؛ لا نا لم تجد فى كتاب اللہ ألا نقبل من خيديث رسول اللہ صلى الله عليه وسلم إلا ما وافق كتاب الله، بل وجدنا كتاب الله يطلق التأسي به والأمر بطاعته و المخالفة عن امرہ جملة على كل حال .»
”اہل علم میں سے ایک گر وہ نے اس حدیث سے معارضہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سب سے پہلے قرآن پر پیش کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اسے کتاب اللہ پر پیش کیا تو اسے کتاب اللہ کے مخالف پایا، کیونکہ ہم نے کتاب اللہ میں یہ نہیں دیکھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی حدیث قبول کی جائے گی، جو کتاب اللہ سے موافق ہو، بلکہ ہم نے پایا ہے کہ کتاب اللہ نے مطلق طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی تعمیل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت اور ہر حال میں آپ ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔“
[جامع بيان العلم وفضله: 1189/2]
✿ نیز فرماتے ہیں:
«قد أمر الله عز وجل بطاعته واتباعه أمرا مطلقا مجملا لم يقيد بشيء ولم يقل ما وافق كتاب اللہ كما قال بعض أهل الريغ .»
”الله عزوجل نے مطلق اور مجمل طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کا حکم دیا ہے، کسی چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ جو حکم قرآن کے موافق ہو (صرف اسی پر عمل کرنا ہے) جیسا کہ بعض گمراہ کہتے ہیں۔
[جامع بيان العلم وفضله: 1189/2]
✿ امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ) فرماتے ہیں:
«إن قول من قال: تعرض السنه على القرآن فإن وافقت ظاهره وإلا استعملنا ظاهر القرآن وترکنا الحدیث جهل .»
”جو شخص یہ کہتا ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے، اگر وہ قرآن کے ظاہر کے موافق ہو تو، درست، ورنہ ہم قرآن کے ظاہر پر عمل کریں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے، یہ جہالت ہے۔“
[إختلاف الحديث: 596/8، مطبوع ملحقا بالأم]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے