حدیث "کلکم ضال” کی درست تشریح اور غلط انداز بیان کا حکم

سوال

"کلکم ضال” والی حدیث کی تشریح میں یہ کہنا کہ "تم سب کے سب گمراہ ہو، کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، کسی صحابی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، قیامت تک کسی شخص کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا” اور پھر بعد میں "سوائے اسے جسے میں ہدایت دوں” کہنا کیا درست ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

حدیث کے عمومی اسلوب کو برقرار رکھنا ضروری ہے، اور اس کی تشریح بھی اسی انداز میں ہونی چاہیے۔
"إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ” کے تحت وہ نفوسِ قدسیہ، جن کی ہدایت و فلاح کی گواہی خود قرآن میں موجود ہے، ان کا تذکرہ گمراہی کے پیرائے میں کرنا اور پھر استثناء کی طرف مشکوک انداز میں آنا خود گمراہی ہے۔

خاص طور پر جب یہ انداز اختیار کرنے والا صحابہ بیزار شخص ہو، تو اس کا یہ طرزِ بیان اور بھی زیادہ قابلِ اعتراض ہو جاتا ہے۔ الغرض، اس طرح مخصوص انداز میں تشریح کرنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1