منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کے جوابات :
قارئین کرام ! منکرین حدیث ، حدیث کو رد کرنے کے لیے کچھ اعتراضات کرتے ہیں۔ اب ہم ان میں سے ہر ایک اعتراض کا بغور جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں کس قدر وزن ہے یا یہ بیہودگی کا شاہکار ہیں ۔
جوان اعتراضات کی حیثیت ہے، اس کو کھول کر لوگوں کے سامنے واضح کر دیتے ہیں تا کہ حق و باطل کے درمیان فرق ہو جائے ۔
قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل كان زهوقا
پہلا اعتراض :
قارئین کرام ! منکرین حدیث کا ایک اعتراض حدیث کو رد کرنے کے لیے یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں اختلاف بہت ہے۔ جو کہ فتنہ کا باعث ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے، لہذا ہم حدیث کو ہی نہیں مانتے۔
جواب :
قارئین کرام ! حدیث کے اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ ہم اس پر بحث نہیں کر رہے؟ بحث ہے کہ کیا اختلاف کی وجہ سے احادیث کو رد کرنا چاہیے؟ اور اختلافات ہی رد کرنے کا سبب ہے؟
حدیث کو نہ ماننے کی وجہ اگر اختلاف ہے، تو بیسیوں آیتیں قرآن حکیم کی ہیں کہ جن میں بظاہر اختلاف ہے، اگر اختلاف ہونا ہی رد کر دینے کا سبب ہے تو ان آیات کو بھی ماننے سے انکار کر دیجئے ۔ چند آیات بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(2-البقرة:240)
”جولوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھا ئیں انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لیے اچھائی سے کریں، اللہ خوب غالب اور حکیم ہے۔“
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جن عورتوں کے شوہر فوت ہو جا ئیں تو ان کو ایک سال تک فائدہ پہنچاؤ اور ان کو گھروں سے مت نکالو لیکن دوسری آیت میں یوں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(2-البقرة:234)
” تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں، پھر جب مدت ختم کر لیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لیے کریں، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبر دار ہے۔ “
کہ جن عورتوں کے شوہر فوت ہو جا ئیں تو وہ چار مہینے دس دن تک انتظار کریں یعنی عدت گزاریں، شوہروں کے گھروں میں رہیں، اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ چار مہینے دس دن تک انتظار کرنا ہے۔ جبکہ اوپر والی میں ایک سال کا ذکر ہے۔ تو دونوں آیتوں میں ظاہری اختلاف ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
(8-الأنفال:65)
”اے نبی ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ ، اگر تم میں بیسں بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دوسو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب ہیں۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تم اپنے سے دس گناہ بڑے لشکر کو شکست دے سکتے ہو لہذا دس گنا بڑے لشکر سے بھی لڑو۔ لیکن اس سے آگے والی آیت میں فرمایا کہ تم اپنے سے دو گناہ لشکر کو شکست دے سکتے ہو۔ لہذا اپنے سے دو گناہ بڑے لشکر کے ساتھ لڑائی کرو۔ پہلی آیت میں دس گناہ سے لڑنے کی ترغیب اور دوسری میں دو گناہ سے لڑنے کی ترغیب دونوں آیتیں ایک دوسرے کے ظاہر کی مخالف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا
(33-الأحزاب:52)
”اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے نکاح کرے اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پوری طرح نگہبانی کرتا ہے۔ “
اس آیت سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد اب کسی عورت سے نکاح نہیں کر سکتے ۔ جبکہ دوسری آیت:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ
(33-الأحزاب:50)
”اے نبی ہم نے تیرے لیے وہ بیویاں حلال کر دی ہیں، جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں۔ “
اس آیت سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کرنا جائز ہے، نکاح کر سکتے ہیں، او پر والی آیت نکاح سے منع کرتی ہے جبکہ دوسری آیت نکاح کی اجازت دیتی ہے۔ دونوں میں ظاہری اختلاف ہے ایک ماننے سے دوسرے کا انکار لازم آتا ہے۔
یہ تو تین مثالیں قرآنی آیات کے بظاہر اختلاف کی ہیں، ایسی بیسیوں آیات منکرین باطل کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں۔ تو کیا وہ اپنے کفریہ نظریہ کے مطابق اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اگر تاویل کر کے ان کے اختلاف کو ختم کریں گے تو کیا ایسے تاویل کر کے حدیث کے اختلاف کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر انکار کیوں؟ لہذا اپنے کفریہ نظریہ سے تائب ہو جائیں، یہی عافیت کی راہ ہے۔
اگر ان آیات کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے ناسخ و منسوخ اور دوسرے دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے تو احادیث مبارکہ میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟
منکرین حدیث کے بقول حدیث کو اگر مانیں تو اس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، جناب عالی! اگر حدیث کو نہ مانا جائے تو کیا اختلاف ختم ہو جائے گا؟ اگر اختلاف ختم ہو جائے گا تو ذرا کر کے دکھا دیجئے !
دو منکرین حدیث میں اختلاف ہو گیا ہے، ایک زید ہے اور دوسرا بکر ہے۔
زید کہتا ہے: پانچ نمازیں فرض ہیں ۔
بکر کہتا ہے: نہیں تین نمازیں فرض ہیں۔
ان دونوں میں صحیح کون ہے اور غلط کون فیصلہ کون کرے گا؟
زید کہتا ہے: ظہر کی چار رکعات ہیں۔
بکر کہتا ہے: تین رکعات ہیں۔
زید کہتا ہے: میں بیٹھ کر سلام پھیروں گا۔
بکر کہتا ہے: میں کھڑے ہو کر سلام پھیروں گا۔
زید کہتا ہے: ایک ہی سجدہ کافی ہے دوسرے کی ضرورت نہیں ہے۔
بکر کہتا ہے: میں تو ایک ایک رکعت میں تین تین سجدے کروں گا۔
ذرا ٹھنڈے دل سے جواب عنایت فرمائیں کہ ان دونوں کے اختلاف کا حل کہاں سے آئے گا؟
آپ نے حدیث کو اس لیے رد کر دیا تھا کہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اختلاف تو حدیث کو رد کرنے کے باوجود باقی ہے، نا صرف باقی ہے۔ بلکہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ہر دو افراد میں شدید ترین اختلاف ہر مسئلہ میں واقع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے تین مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بیسیوں مسائل نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ،سفر اور حضر نمازوں کے اوقات وغیرہ میں اختلاف ہو جائے گا۔ اس اختلاف کو حل کون کرے گا؟
اگر ان کے بقول ان مسائل کا تعین وقت کا حکمران کرے گا تو ہم سوال کریں گے کہ حکمران کو یہ اتھارٹی کس نے دی ہے کہ وہ اللہ کے دین کا تعین کرے، جبکہ یہ اتھارٹی تو اللہ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کو بھی نہیں دی۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾
(69-الحاقة:44، 45، 46)
”اگر یہ ( ہمارا پیغمبر ) بھی اپنی کسی بات کو ہماری طرف منسوب کر دیتا ، تو ہم اس کو بھی اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے “
قارئین کرام ! اندازہ فرمائیں! کہ دین میں کمی اور زیادتی کا اختیار اللہ نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کو بھی نہیں دیا تو حکمران کون ہوتا ہے؟ کہ دین میں کمی یا زیادتی کر سکے۔ جب حکمران کمی اور زیادتی نہیں کرسکتا، تو پھر تعین اور وضاحت تو نہ ہو سکے گی۔ جب نہ ہو سکے گی تو اختلاف تو باقی رہا۔ جب مشکل سے نکلنے کے لیے حدیث کا انکار کیا تھا۔ انکار کرنے سے تو اس سے بڑی مصیبت اور مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ لہذا امن و عافیت کا راستہ یہی ہے کہ انکار حدیث سے توبہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے قبول کریں، تا کہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات مل جائے ۔ کیونکہ یہ نجات اور کامیابی کا راستہ ہے۔
دوسرا اعتراض ( حدیث قرآن کے خلاف ہے):
قارئین کرام! منکرین کا یہ اعتراض بھی انتہائی بودہ ہے۔ کیونکہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے نہ کہ اس سے ٹکرانے والی۔ یہ الگ بات ہے کہ رب نے ذہن ماؤف کر دیے ہوں، جن میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہو کہ جنہوں نے معمولی بظاہر ٹکراؤ کو انتہائی خطرناک اختلاف باور کرایا ہو۔
منکرین اپنے مذکورہ دعویٰ کی دلیل کے طور پر صحیح بخاری کی اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ جس میں ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹوں کا ذکر ہے۔ جبکہ قرآن سید نا ابراہیم علیہ السلام کوسچا نبی قرار دیتا ہے۔ حدیث جھوٹ کا الزام لگاتی ہے۔ لہذا حدیث کو رد کر دیتے ہیں۔ ذیل میں مذکورہ واقعات کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ کی طرف منسوب کرتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم کا مذکورہ جھوٹ نہیں ہے بلکہ توریہ ہے یعنی ایسا انداز کہ جس سے سامنے والا مقصد تک غور و خوض کے بعد پہنچے بالفاظ دیگر یہ انداز بہتر طور پر سمجھانے کے لیے اپنا یا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنایا۔
بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا
(21-الأنبياء:63)
”بلکہ یہ ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے۔“
1 : بڑے بت کو چھوڑ دیا باقی سب کو توڑ دیا ۔ پوچھنے پر جواب دیا کہ بڑے نے توڑا ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ اگر جھوٹ ہی بولنا تھا تو کیا اس کا یہی جواب ہونا چاہیے تھا یا یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجھے تو کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ یقینا یہی ہونا چاہیے تھا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں، لیکن یہ جواب نہیں دیا، بلکہ کہا کہ بڑے نے توڑا ہے۔ تا کہ ان پر بہتر انداز میں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ پتھر کی بنی مورتیاں اور یہ بت کچھ نہیں کر سکتے ۔ تو انہوں نے تو ڑنا کہاں سے ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس مقصد میں قرآن کے الفاظ میں کامیاب ہوئے ، خود کافروں نے اقرار کیا کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے ۔
سید نا ابراہیم علیہ السلام نے مذکورہ انداز اسی لیے اپنایا تھا۔ تا کہ باطل کو اپنے باطل ہونے کا اچھی طرح یقین ہو جائے۔ نا کہ جھوٹ بولنے کے لیے اور نہ ہی جھوٹ بولا۔ بلکہ اس انداز کو توریہ کہا جاتا ہے۔ اگر یہ جھوٹ بھی ہے تو اس کا ذکر قرآن نے بھی کیا ہے۔ لہذا قرآن کو بھی رد کر دیجئے ، کیونکہ قرآن ایک طرف ابراہیم کو سچا کہتا ہے اور دوسری طرف خود اس جھوٹ کو نقل کرتا ہے۔
لہذا ان کے نظریہ کے مطابق ان کے پاس قرآن کو نہ ماننے کی دو وجوہ ہو گئیں۔
① سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹ کا الزام ۔
② قرآن حکیم کی دو آیات میں باہمی اختلاف۔
یہ لوگ اپنے نظریہ کے بارے میں فیصلہ خود کر لیں۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
2: سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ساتھ ایک جابر حکمران کے علاقے میں گزرے۔وہ حکمران خوبصورت عورتیں چھین لیتا تھا اور اگر ساتھ میں شوہر ہوتا تو اس کو قتل کروا دیتا تھا۔ سیده سارہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس حکمران نے طلب کیا، تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کو کہا کہ تم مجھے اپنا بھائی ظاہر کرنا۔
صحیح بخاری، کتاب البيوع، باب شراء المملوك من الحرمي وبهته وعتقه، رقم: 2217، کتاب احادیث الانبياء باب قول الله تعالى واتخذ الله ابراهيم خليلا (النساء) وقوله ان ابراهيم كان امة قانتا لله (النحل) رقم: 3357، 3358
اس حدیث میں مزید وضاحت ہے:
«و الله ان على الأرض من مؤمن غيرى وغير ك»
”اللہ کی قسم ! روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی بھی مومن (جوڑا) نہیں ہے۔ “
اس موقع پر اپنی بیوی کو بہن کہا ہے۔ اب یہ بھی بظاہر جھوٹ ہے، لیکن حقیقت میں جھوٹ ہے بھی نہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے تمام بنی آدم ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں، کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے سب ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں، لہذا جھوٹ نہ رہا، اور پھر یہ جھوٹ اس وجہ سے بھی نہیں ہے کہ اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ظلم و زیادتی سے بچانا ہے۔ اور اس کے جھوٹ کو جھوٹ نہیں مانتا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
(16-النحل:106)
” کہ جس نے مجبورا کلمہ کفر کہہ بھی دیا لیکن دل ایمان پر مطمئن ہے (تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے) “
3 : تیسرا واقعہ یہ کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے انہیں میلے پر جانے کی دعوت دی تو انہوں نے معذوری ظاہر کی یعنی اني سقيم ”بلاشبہ میں بیمار ہوں ۔“ چونکہ انسان کو کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اس لیے سفید جھوٹ نہیں تھا یا انہیں بتوں کی بیماری لاحق تھی۔
یہ انداز مخالفین کو انتہائی ہیچ اور ذلیل کرنے کے لیے اور ان کی ہر قسم کی دلیل کو ختم کرنے کے لیے اپنا یا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم مخالفین سے کسی مسئلہ پر کہتے ہیں، چلو ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں تم ذرا اس کو ثابت کر کے تو دکھاؤ لیکن وہ ثابت نہیں کر سکتے تو ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے اس کردار کو کوئی جھوٹا نہیں کہے گا، بلکہ مخالفین کو ذلیل کیا جائے گا کہ وہ تو ماننے کے لیے تیار تھے لیکن تم ہی ثابت نہ کر سکے۔ یہاں سید نا ابراہیم علیہ السلام کا بھی یہی انداز ہے۔ جس کو کوئی بھی صاحب عقل جھوٹ نہیں کہہ سکتا ۔ کیونکہ اصل مقصد اصلاح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«ليس الكذاب الذى يصلح بين الناس ويقول خيرا وينمي خيرا»
صحیح بخاری کتاب الصلح باب ليس الكاذب الذي يصلح بين الناس، رقم: 2692، کتاب البر والصلة باب تحريم الكذب وبيان ما يباح عنه ، رقم: 6633
” کہ وہ جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان اصلاح کراتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اصلاح کے لئے ٹھیک کہتا ہے اور جو چغل خوری اصلاح کے لئے کرتا ہے وہ بھی جھوٹا نہیں ہے۔“
یہاں اگریہ اعتراض ہے کہ حدیث قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے، تو یہاں معترضین پر یہ اعتراض بھی ہے کہ یہاں دو جھوٹ تو قرآن میں مذکور ہیں۔ لہذا قرآن میں اختلاف ہے تو یہ بھی دلیل و حجت نہ رہا۔
تیسرا اعتراض:
حدیث وحی نہیں ہے۔ جو چیز وحی نہ ہو وہ حجت نہیں ہو سکتی ۔ وحی صرف قرآن مجید ہے۔
سنت آپ کی طرف وحی نہیں کی گئی ۔ لہذاوہ حجت نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا:
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ
(6-الأنعام:19)
”قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے۔ “
جواب :
منکرین حدیث کی یہ دلیل ان کے دعوی کو ثابت نہیں کرتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا گیا ہے ان کی دلیل دعوے کے مطابق نہیں، کیونکہ قرآن کے وحی ہونے کی بہت سی دلیلیں ہیں۔ لیکن کسی آیت میں حصر نہیں کہ قرآن ہی وحی ہے، کوئی اور چیز نہیں، بلکہ حدیث رسول بھی وحی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
(53-النجم:3، 4)
”اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں، وہ تو وحی ہوتی ہے جو اُن پر اُتاری جاتی ہے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کا پابند کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے دین کے معاملہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ، ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾
(69-الحاقة:44 تا 48)
”اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتے تو البتہ ہم آپ کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ، پھر آپ کی شہ رگ کاٹ دیتے پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔“
اندازہ کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین وعید سنائی گئی ہے، اپنی طرف سے دین میں کبھی بھی کسی قسم کی مداخلت کرنے کی صورت میں ، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین میں اپنی خواہش سے کچھ بھی نہیں بولتے، بلکہ جو کچھ بولتے ہیں وہ اللہ کے حکم کے مطابق بولتے ہیں تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی الہی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کی کئی آیات میں اس چیز کی وضاحت فرمائی ہے کہ میرا پیغمبر تو بس ہمارے احکام کا پابند ہے۔ جو کچھ اس کو کہہ دیا جاتا ہے وہی تم تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ صراحت اللہ مہربان نے اس لیے فرمائی ، تا کہ بد باطن لوگ یقین کر لیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی الہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
(6-الأنعام:50)
”آپ کہہ دیجئے ! نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں ۔“
اندازہ کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام خرق عادت امور کی نفی کر دی گئی، نیز یہ بھی وضاحت کر دی گئی کہ میں بس وحی ( اللہ کے پیغام) کی ہی پیروی کرتا ہوں ،معلوم ہوا حد یث وحی الہی ہے۔
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(7-الأعراف:203)
”اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے ، تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے ، آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں ، جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے، یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ۔“
غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار معجزہ کا مطالبہ کرتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں فرماتے کہ میں تو اللہ کے احکامات کا پابند ہوں۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں میرے بس میں معجزہ دکھانا نہیں ہے میرا کام تو وحی الہی کی پیروی کرنا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کا پابند کیا گیا ہے۔ مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
(10-يونس:109)
” جو آپ کی طرف وحی بھیجی گئی ہے اس کی پیروی کریں، اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرما دینے تک صبر کا مظاہرہ کریں، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔“
قارئین کرام! ان تمام آیات پر غور فرما ئیں معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحی کے پابند ہیں۔ وحی الہی کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہی میں قطعا دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وحی الہی نہ ہو۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بھی وحی الہی ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اب ہم آپ حضرات کے سامنے قرآن میں بیان کردہ کچھ ایسے واقعات بیان کرتے ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بھی وحی الہی قرار دیتا ہے۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
(66-التحريم:3)
” پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی کہا سب جانے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلا دیا، اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو تو بہت بہتر ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پورے واقعہ کی خبر وحی کے ذریعے سے دی گئی، جس کی صراحت خود قرآن پاک کر رہا ہے کہ:
نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
(66-التحريم:3)
”مجھے علیم الخبیر نے بتایا ہے۔“
اگر وحی صرف اور صرف قرآن کا نام ہے ، حدیث وحی الہی نہیں ہے تو پھر وہ واقعہ کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ آیت میں بتایا گیا، جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی گئی ہے اور جس کا قرآن خود اعتراف کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ رہے ہیں کہ مجھے علیم الخبیر نے خبر دی ہے۔ وہ واقعہ پورے قرآن سے ثابت کر کے دکھا ئیں جو کہ نہیں ہوسکتا۔ تو جب ثابت نہیں ہو سکتا تو ماننا پڑے گا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے کہ جس کی صراحت قرآن کی مذکورہ آیت کرتی ہے۔
دوسرا واقعہ قرآن بیان کرتا ہے۔
لَقَد صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّويَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلْنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ الله مِنينَ مُحَلَقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿٢٧﴾ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا ﴿٢٨﴾
(48-الفتح:27، 28)
”یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واقعہ خواب سچا دکھایا کہ ان شاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوؤ گے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے چین کے ساتھ نڈر ہو کر، وہ ان امور کو جانتا ہے، جنہیں تم نہیں جانتے ، پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی “
اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا ذکر ہے، وہ خواب کیا تھا کہ جس کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مذکورہ آیت میں کیا ہے، پورا قرآن اٹھا لیجئے کہیں ان حضرات کو خواب نہیں ملے گا اگر ملے گا تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جس کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے تو اسی سے بھی ثابت ہوا کہ حدیث بھی وحی الہی ہے، اسی وجہ سے قرآن اس کی تائید وضاحت کر رہا ہے۔
تیسر اواقعہ جس سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی الہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ارشادر بانی ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ
(2-البقرة:143)
”جس قبلہ پر پہلے تھے اس کو تو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا، تا کہ ہم یہ جان لیں کہ کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے۔ اور کون نہیں کرتا ۔ “
قارئین کرام! ارشاد ربانی پر غور فرمائیں کہ پہلے قبلہ کو ہم نے مقرر کیا، بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم پورے قرآن میں نہیں ہے، اگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہی نہ مانا جائے تو پھر قرآن کے اس حکم کو کیا کہو گے؟
قارئین کرام! بیسیوں ایسے واقعات قرآن میں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے اور اس کے وحی الہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ چند ایک واقعات آپ کے سامنے بیان کر دیے ہیں ، جو سمجھنے کے لیے کافی ہیں، بشرطیکہ دل میں ایمان ہو اور رب نے دل پر مہر نہ لگادی ہو، کیونکہ دلوں کے بند ہو جانے کی صورت میں ہزاروں لاکھوں دلائل بھی کارگر ثابت نہ ہوں گے۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشین گوئیوں کا پورا ہونا بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے نکلنے والے کلمات وحی الہی ہیں، بس اتفاق اتنا ہے کہ قرآن رب کے الفاظ ہیں جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ، اللہ تعالیٰ کے مفہوم کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں ، دونوں ہی اللہ کی طرف سے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار پیش گوئیاں فرمائیں، بعض پوری ہوچکی ہیں اور باقی ان شاء اللہ پوری ہو کر رہیں گی، یہ سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے وحی تھیں اور اس کا اقرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی گاہے بگا ہے فرماتے رہتے تھے:
① سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: اے فاطمہ ! سب سے پہلے آپ مجھے ملو گی ۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3712.
② سید نا سراقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سراقہ میں تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن دیکھ رہا ہوں ۔
الخصائص الكبرى للبيهقي: 113/2.
③ جس وقت سید نا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اکیدر کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ تم اس کو گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے چنانچہ اسی طرح ہی ہوا۔
اکنز العمال: 31565۔ البدايه والنهايه : 1765.
④ خیبر کے بارے میں اطلاع دی کہ کل ایک بندے کے ہاتھ پر فتح ہو جائے گا اور صبح خیبر سید نا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہو گیا ۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4209۔
⑤ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا ”میرا یہ بیٹا مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اتفاق کا سبب ہوگا۔ “
صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 3746.
اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامت اور اس سے پہلے پیش آنے والے واقعات کی خبر دی جو کہ علم غیب سے تعلق رکھتی ہے اور قرآن وحدیث کی قطعی نصوص اس کو واضح کرتی ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، کیونکہ یہ اس کی صفت ہے۔ نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی ذات میں اس کا شریک ہے اور نہ ہی اس کی صفات عالیہ میں ۔ تو جب اس کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غیب کی خبریں کیسے دیں؟ جبکہ قرآن وحدیث کی صریح نصوص اس چیز کی بھی وضاحت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم الغیب نہیں جانتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیے:
وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ
(7-الأعراف:188)
”کہ اگر میں علم غیب جانتا ہوتا تو میں تو بہت سی خیر حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی بھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ “
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، تو پھر یہ غیب کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے دے رہے ہیں۔ اس کا قطعی جواب یہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی سے دے رہے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
(81-التكوير:24)
”اور وہ غیب کی خبروں پر بخیل نہیں۔ جو خبریں ان کو دی جاتی ہیں، وہ تمہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ “
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیب کی خبریں بھی وحی الہی ہیں۔ جن کا ذکر اگر چہ قرآن میں نہیں لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحی جو کہ قرآن کے علاوہ ہے۔ اور وہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے، اور اس کے وحی الہی ہونے میں ایک ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے، اور اگر کوئی شک کرے گا تو یقینا اس کا ایمان سلامت نہیں رہے گا بلکہ وہ بد بخت ومر دو ہو گیا۔
سیدنا حسان بن عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كان جبريل بنزل على النبى صلی اللہ علیہ وسلم بالسنة كما ينزل عليه القرآن.»
سنن دارمی، باب السنة قاضية على كتاب ، رقم: 588.
”جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کریم کی طرح سنت لے کر بھی آئے تھے۔“
پیغمبروں کی طرف وحی کی جاتی ہے، اس کی کئی اقسام ہیں، مثلاً جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی کتابی شکل میں موجود ہو ۔ غیر متلو جس کی تلاوت نہیں کی جاتی، یعنی کتابی شکل میں یا رب کے الفاظ نہ ہوں، بلکہ مفہوم و معنی اللہ کی طرف سے ہو لیکن الفاظ پیغمبروں کی اپنی زبان سے جاری ہوں جیسے کہ پھر قرآن نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو جو فرعون سے ہوئی تھی وحی الہی کہا ہے، حالانکہ تورات اس کے بعد نازل ہوئی ہے، تو اس کو کیا کہا جائے گا؟ کیا قرآن نے غلط کہا ہے؟ یا یاران فتنہ کے دماغ خراب ہو چکے ہیں؟
شیخ الحدیث ابومحمد حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ رقم طراز ہیں : ایک عام مسلمان بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حضرت نوح، اسماعیل، اسحاق ، یعقوب، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہم السلام کی طرف جو وحی بھیجی گئی اس کا تعلق وحی خفی سے تھا، یعنی وہ وحی متلونہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے جو فکری جنگ لڑی تھی وہ حدیث کے ہتھیار سے لڑی تھی، کیونکہ تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد عطا ہوئی تھی ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تینوں اقسام کی وحی سے امر الہی نازل ہوتا تھا، چونکہ قرآن مجید صرف ایک قسم کی وحی پر مشتمل ہے، لہذا دیگر اقسام وحی سے حدیث وسنت نازل ہوئی اگر احادیث کو ان اقسام وحی میں شمار نہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ دو اقسام پر مشتمل وحی الہی کہاں غائب ہو گئی ان کا غائب ہونا ناممکن ہے الہندا ما ننا پڑے گا کہ وہ بقیہ اقسام حدیث کی صحت میں رسول اللہ پر نازل ہوئیں ۔
حجیت حدیث، ص: 20/19
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن ہی کی تفسیر ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کی حقیقی تفسیر ہے۔ اس تفسیر کی ذمہ داری اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی خود مقرر کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ
(16-النحل:44)
”اس ذکر ( قرآن ) کو ہم نے آپ کی طرف نازل کر دیا ہے، تا کہ آپ اسے لوگوں کے لیے بیان کر دیں۔“
اس آیت مبارکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن کی تفسیر و توضیح بیان کریں، معنی و مفہوم سمجھا ئیں ، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پابند تھے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر و توضیح اور معنی و مفہوم کی حیثیت کیا ہے؟ اور کس کی طرف سے ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ یہ تغیر و توضیح بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، تو جب یہ تفسیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر یہی سب سے اول اور افضل ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام کی شکل معنی و مفہوم اسی مہربان کا ہے، ارشاد ربانی ہے:
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾
(75-القيامة:18، 19)
” جب ہم اس کو پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قرآن کی پیروی کریں، پھر اس کی وضاحت بھی ہمارے ذمہ ہے۔“
چوتھا اعتراض:
منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث روایت بالمعنی ہے اور روایت بالمعنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود کلام تبدیل ہو سکتا ہے۔ لہذا حدیث حجت نہیں ہے۔ ان کے اس شبہ کی بنیاد تین مقدموں پر ہے:
① جو چیز روایت بالمعنی ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔
② حدیث اور سنت سب روایت بالمعنی ہیں ۔
③ روایت بالمعنی میں مقصود تبدیل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
پہلا مقدمه:
ان کے تینوں مقدمات باطل ہیں۔ کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی دلیل نہیں، جس کی رو سے روایت بالمعنی حجت نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کے اکثر انبیا ورسل علیہ السلام عجمی تھے اور ان کی امتیں بھی عجمی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبریں، قصے اور اقوال قرآن میں عربی میں ذکر کیے ہیں۔ جو روایت بالمعنی ہیں۔ اگر ان کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ روایت بالمعنی حجت نہیں تو قرآن کا اکثر حصہ بھی حجت نہیں رہے گا، کیونکہ اکثر و بیشتر قرآن روایت بالمعنی ہے اور ان کے اس مقدمہ کی نہ عقلی دلیل ہے نہ نقلی ، لہذا یہ باطل ہے۔
دوسر ا مقدمه:
یہ بھی باطل ہے، کیونکہ فعلی اور تقریری روایت کے الفاظ سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہوتے۔ لہذا یہ روایات روایت باللفظ ہو ہی نہیں سکتیں۔ باقی قولی روایت میں بھی بہت سی روایات روایت باللفظ ہوتی ہیں۔ جیسے مسنون دعائیں اور ”التحیات“ کے الفاظ اس قسم کی تمام روایات باللفظ ہیں۔ لہذا یہ دعوی باطل ہے کہ تمام کی تمام روایات روایت بالمعنی ہیں ۔
تیسرا مقدمه:
قبول روایت کی شرطوں میں ایک شرط راوی کا ثقہ ہونا ہے، اس کے ساتھ اگر وہ روایت بالمعنی کرے تو اسے مفہوم پر کامل دسترس حاصل ہو، تاکہ مقصود کلام تبدیل نہ ہو سکے، قبول روایت کی ان کڑی شرائط کے ہوتے ہوئے مقصود کلام تبدیل ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ البتہ جو راوی ضعیف ہے یا لغت کا علم نہیں رکھتا اس کی حدیث کو ہم بھی حجت تسلیم نہیں کرتے۔
پانچواں اعتراض :
حدیث ہم تک خبر واحد کے طریق سے پہنچی ہے، لہذا حدیث ظنی ہے اور ظنی چیز حجت نہیں ہوتی کیونکہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے:
وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
(53-النجم:28)
”بلاشبہ حق کے مقابلہ میں ظن کچھ کفایت نہیں کرتا ۔“
منکرین حدیث کے اس شبے کی بنیاد تین مقدموں پر ہے۔
① حدیث اور سنت کا پور اذخیرہ خبر واحد کے ذریعے پہنچا ہے۔
② خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ قطعی اور علم یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔
③ جو چیز ظنی ہو وہ حجت نہیں ہوسکتی۔
پہلا مقدمہ :
تینوں مقدمے اور اس کے شبہے باطل ہیں۔ پہلا مقدمہ اس لیے باطل ہے، کیونکہ بہت سی احادیث تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح نحبة الفكرمیں وضاحت کی ہے کہ حدیث اور سنت میں بہت سی روایات متواتر ہیں۔ جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے متواتر احادیث میں ایک مستقل کتاب الا از هار المتناثره فى الاخبار المتواتر لکھی ہے۔ جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جو علم یقینی کا فائدہ دے خواہ وہ بطریق احاد ہم تک پہنچتی ہو۔ اس قول کے تحت حدیث کا اکثر ذخیرہ متواتر بن جائے گا۔
دوسرامقدمه:
یہ بھی غلط ہے، کیونکہ بہت سی اخبار احاد بھی علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔ اس لیے کہ بسا اوقات ایک شخص ایسے اوصاف سے متصف ہوتا ہے جو بہت سے آدمیوں کی صفات سے فوقیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر جب خبر واحد مختف با القرائن ہو تو وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ اس پر امام شافعی نے استدلال کیا ہے کہ اللہ نے مختلف امتوں کی طرف ایک ایک رسول بھیجا ہے۔ ہر رسول کی خبر ان کے لیے خبر احاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ
(2-البقرة:150)
اور اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبی کے گورنر و عمال مختلف علاقوں کی طرف ایک ایک بھیجے جاتے اور مختلف علاقوں میں پہنچ کر نبی کے اقوال و افعال کا پیغام دیتے تھے اور ان کی بات ان کے لیے حجت ہوتی تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے اکثر اخبار احاد ظنی نہیں بلکہ یقینی ہوتی ہیں۔
تیسرا مقدمه:
تیسرا مقدمہ بھی باطل ہے۔
کیونکہ ظن بسا اوقات حجت ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ
(2-البقرة:46)
”جو لوگ یقین رکھتے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔“
یہاں اللہ نے ظن کو حجت قراردیا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی کی ملاقات کو یقین کہا گیا ہے۔
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ
(2-البقرة:249)
”ان لوگوں نے کہا جو یقین رکھتے تھے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ “
یہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ ظن کو قبول کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے اور یہ بطور حجت ہوتا ہے۔ اور جو وہ آیت پیش کرتے ہیں، وہ دلیل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
”حق کے مقابلے میں ظن باطل ہے۔“
ویسے قرآن میں آیا ہے کہ ظن قبول کیا جاتا ہے۔ باقی رہا کہ اصول حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ حدیث ظنی ہے اس سے مراد ظن بمعنی یقین ہوتا ہے۔ حدیث کو کوئی محدث بھی ظنی نہیں کہتا۔ پھر ظن کا تعلق حدیث کے استدلال کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
چھٹا اعتراض :
احادیث بسا اوقات قرآن کے خلاف آجاتی ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف آئے ، وہ حجت نہیں ہوتی۔ اس لیے حدیث حجت نہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
﴿وَيَسْئلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾
جب کہ بخاری کی حدیث میں ہے :
«وكان يأمرني فاتزر فيباشرني وأنا حائض»
صحیح بخاری، کتاب الحیض باب مباشرة الحائض، رقم 299.
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیتے میں ازار باندھ لیتی پھر آپ مجھ سے مباشرت کرتے ۔ “
یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔
جواب :
اگر کسی چیز کے معنی قرآن میں نہیں حدیث میں ہیں تو یہ کوئی مخالفت نہیں، کوئی چیز قرآن میں نہیں، لیکن حدیث میں ہے، جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کو حرام قرارد یا اس طرح پھوپھی بھتیجی، بھانجی، خالہ کو ایک نکاح میں رکھنا نا جائز کہا یہ تو کوئی مخالفت نہیں۔ اگر مخالفت کا مطلب قرآن میں ایک چیز کا اثبات اور حدیث میں اسی چیز کی نفرت ہے۔ یا الٹا۔
تو یہ مخالفت کا معنی بنتا ہے لیکن اس طرح کی قرآن اور حدیث کی مخالفت سرے سے ہے ہی نہیں۔ صحیح حدیث قرآن کے مخالف ہو۔ یہ بات بالکل غلط ہے اور جو مثال پیش کی ہے، یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے ہی نہیں۔ کیونکہ قرآن میں حائضہ عورت کے ساتھ جماع سے روکا گیا ہے اور حدیث میں مباشرت کی اجازت دی جارہی ہے جو کہ جماع کے علاوہ ہے۔
ایک مخالفت یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں حکم عام اور حدیث میں خاص ہو اور قرآن میں مطلق ہو اور حدیث میں مقید لیکن یہ بھی مخالفت نہیں ہے۔ اگر اس کا نام مخالفت رکھ دیا جائے تو قرآن میں بھی مخالفت ہو جائے گی ۔ جسے إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ (2-البقرة:173) کو دوسری آیات دَمًا مَّسْفُوحًا (6-الأنعام:145) کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ مخالفت نہیں، جس طرح قرآن کی آیات ایک دوسری کو مقید اور خاص کر سکتی ہیں۔ سنت اور حدیث بھی ایک دوسری کو خاص اور مقید کر سکتے ہیں۔ فقہ حنفی کا قاعدہ ہے کہ قرآن میں ایک حکم عام ہے تو حدیث کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا جاسکتا، اور خود ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قرآن کو مقید کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ ذیل آیت کریمہ اس کی دلیل ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
(5-المائدة:38)
” اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ “
حنفی کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔
قرآن مجید اور حدیث شریف میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے، حقیقت میں کچھ تعارض نہیں ہے۔
ساتواں اعتراض:
حدیث اور سنت ایک دوسرے کے خلاف آجاتی ہیں، اور جو چیز ایک دوسرے کے خلاف آجائے وہ حجت کیسے ہو سکتی ہے۔
جواب :
ایسی دو روایتیں جو بظاہر متعارض نظر آتی ہوں یا تو وہ دونوں صحیح ہوں یا دونوں غیر صحیح ہوں یا ایک صحیح اور دوسری غیر صحیح ہو یا دونوں ضعیف یا ایک ضعیف اور ایک صحیح ہے تو تعارض ہے ہی نہیں، کیونکہ ایسی روایتوں میں تعارض کا تصور ہی نہیں ہوتا، لیکن جب دونوں روایتیں صحیح ہوں تو ان میں اگر تطبیق ممکن ہے تو تطبیق ہوگی، یا ان کے تقدیم وتاخیر کی وجہ سے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا جائے گا، یا ترجیحات کی وجوہ کی بنا پر ایک کو دوسری پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر کوئی چیز بظاہر تعارض کی وجہ سے حجت نہیں ہے تو قرآن بھی حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن میں بھی بظاہر تعارض ہے۔ جیسے فرمان الہی ہے:
فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
(32-السجدة:5)
”اُس دن جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال ہوگی۔ “
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
(70-المعارج:4)
”فرشتے اور جبریل اس کے پاس چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ “
کیا قرآن میں بھی تعارض ہے؟ کیونکہ مذکورہ بالا آیات کریمہ میں سے ایک میں ہے کہ اس دن کی مقدار ہزار سال ہے جب کہ دوسری میں پچاس ہزار سال ہے۔
اسی طرح ان آیتوں میں بھی بظاہر تعارض نظر آتا ہے۔ ایک میں ہے کہ زمین پہلے تخلیق کی گئی ، جبکہ دوسری میں ہے آسمان ۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ
(2-البقرة:29)
”وہ ذات جس نے تمھارے لیے زمین میں سب کچھ پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انھیں سات آسمان بنایا ۔ “
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
(79-النازعات:30)
”اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا۔“
آٹھواں اعتراض :
حدیث کے اندر کئی چیزیں ایسی ہیں جو عقل کے خلاف ہیں، جو چیز عقل کے خلاف ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔ یہ بہت پر انا شبہ ہے۔
معتزلہ جھمیہ نے بھی اس بنیاد پر بہت سی احادیث کا انکار کیا۔ سبب یہ کہ جب یونانی فلسفہ عربی میں آیا تو بہت سے علماء اس فلسفے سے متاثر ہو گئے تو انہوں نے عقل کو نقل پر مقدم سمجھ لیا۔ معتزلہ نے اللہ کے متکلم ہونے کا انکار کر دیا۔ حنفیوں نے متاثر ہوکر حدیثوں کا انکار کر دیا مثلاً حدیث مصرات کا انکار وغیرہ۔
جواب :
عقل کی کئی قسمیں ہیں۔ کافروں کی عقل، منافق کی عقل، مسلمانوں اور مومنوں کی عقل ، پھر مومنوں کی بھی کئی قسم کی عقل ہے۔ اس کا تعین کریں کہ کس کی عقل کے خلاف ہے اور جو عقل کا تعین کریں اس کی قرآن سے دلیل بھی دیں۔ اگر وہ کہیں کہ حدیث عقل کل کے خلاف ہے۔ یہ بات نا معقول ہے۔ اگر کہیں کہ کسی خاص عقل کے خلاف ہے تو اس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر کہیں کہ نبی کی عقل کے خلاف ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کہیں کہ بعض کی عقل کے خلاف ہے تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات بھی بہت سے لوگوں کی عقل کے خلاف ہیں تو معاذ اللہ، قرآن حجت نہ رہا؟ جیسے:
إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ
(37-الصافات:64)
”وہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوا ہے۔“
بظاہر یہ بھی عقل کے خلاف ہے۔ اسی طرح قرآن میں ہدہد کی گفتگو کا تذکرہ اسی طرح چیونٹی کی گفتگو کا تذکرہ اسی طرح انبیا علیہ السلام کے سب معجزات عقل کے خلاف ہیں۔
لہذا آپ کے نزدیک اور آپ کے اصول کے مطابق معاذ اللہ قرآن بھی حجت نہ رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ حدیث اور سنت صحیح سند سے ثابت ہو جائے ، وہ عقل کے خلاف ہوہی نہیں سکتی بشر طیکہ عقل صحیح ہو۔ اگر حدیث عقل کے خلاف ہے تو یا وہ عقل بھی صحیح نہیں یا حدیث ضعیف ہوگی۔
اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب معرفة المعقول الصريح میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
نواں اعتراض :
حدیث اور سنت تاریخ کے خلاف آجاتی ہے، اس لیے حجت نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا المومنین کا نکاح (6) یا (7) برس کی عمر میں ہوا، جبکہ تاریخ ان کے نکاح کے وقت ان کی عمر (16) یا (17) برس بتاتی ہے۔
جواب :
حدیث اور سنت جب رسول اللہ سے ثابت ہو جاتی ہے تو جیسے قرآن اور عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی تو اسی طرح حدیث تاریخ صحیح کے معارض بھی نہیں آسکتی ۔ اگر ایسا تعارض نظر آئے تو یقینا تاریخی روایت ثابت بھی نہیں ہوں گی۔ کیونکہ ائمہ حدیث کے نزدیک حدیث کی سند اور متن کا جتنا اہتمام ہے، مؤرخین کے نزدیک اس کا عشر عشیر بھی نہیں، ایسی سنت جو تاریخ کے معارض ہے وہ سنت تاریخ پر حاکم ہے نہ کہ تاریخ سنت پر ۔ جبکہ وہ تاریخی روایت جو (16۔17) والی روایت ہے جس کو ترجیح دی جاتی ہے، مردود ہے۔ بلکہ سرے سے ثابت ہی نہیں۔ اس لیے تعارض بنتا ہی نہیں۔ جیسا تعارض سنت اور تاریخ میں ہے، ایسا تعارض تو قرآن اور تاریخ میں بھی ہے۔ اس لیے پھر بھی حجت ہوں گے۔ اس لیے کہ تاریخ میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی والدہ مصر میں ان کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں لیکن قرآن میں ہے۔ ملاقات کے وقت زندہ تھیں۔ اس لیے بھی کہ قرآن کے خلاف ہے تو قرآن بھی پھر حجت نہ رہا۔
دسواں اعتراض :
حدیث کے اندر کئی چیزیں سائنسی تحقیق اور جدید تجربات کے خلاف ہیں، اس لیے حدیث حجت نہیں ہے۔
جواب :
(1) صحیح حدیث صحیح سائنسی تحقیق کے متعارض نہیں ہوسکتی۔
(2) اگر تسلیم کر لیں کہ حدیث تحقیق و تجربات کے خلاف ہو جاتی ہے تو قرآن بھی ان کے خلاف آجاتا ہے۔ اس لیے وہ بھی حجت نہیں۔ مثلاً سائنس دان کہتے ہیں کہ سورج کھڑا ہے، اورزمین ارد گرد گھوم رہی ہے۔ قرآن میں ہے کہ سورج چلتا ہے۔
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى
(13-الرعد:2)
پھر سائنس کہتی ہے۔ سورج غروب نہیں ہوتا ، اور قرآن میں ہے کہ سورج غروب ہوتا ہے۔ پھر جہنم کی آگ کی سختی، جنت میں پھل اور درختوں کا وجود بھی سائنس کے خلاف ہے تو قرآن بھی حجت نہ رہا، پھر سائنس دانوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ پرانے سائنس دانوں کے نظریہ کے مطابق زمین ٹھہری ہے اور نئے کے نزدیک چلتی ہے، اور پرانے کہتے تھے کہ افلاک ایک مادی چیز ہے اور نئے کہتے ہیں کہ یہ مادی چیز نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ سائنس کی رسائی انسانی عقل تک محدود ہے، اور جہاں سے عقل کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے دین کی ابتدا ہوتی ہے۔
گیارہواں اعتراض:
اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور حدیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا ہے۔
اس لیے حدیث حجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(15-الحجر:9)
”بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔“
جواب :
قرآن کی اس آیت سے ان کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے حدیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھایا، قرآن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذکر میں قرآن کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَاسْئلُوا أَهْلَ الذِكرِ إن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اس آیت میں ذکر سے مراد تورات اور انجیل ہیں، تو ثابت ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی ذکر ہے۔
اسی طرح ہے:
قَدْ أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ﴿١٠﴾ رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ
(64-الطلاق:10، 11)
”بے شک اللہ نے تمہاری طرف ذکر کو نازل کیا ہے، ایک رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے اللہ کی کھلی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔“
یہاں ذکر سے مرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، خود اللہ نے متعین فرمادیا ہے یعنی رسول اللہ کے اقوال و افعال ذکر ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قرآن وحدیث دونوں ذکر ہیں۔ اللہ نے دونوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا۔ بلکہ اللہ کا پورا دین ذکر ہے اور اللہ نے پورے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے تو ضعیف احادیث کیسے آگئیں؟
ضعیف حدیثوں کا ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے، کیونکہ جس نے بھی حدیث میں دخل اندازی اور جھوٹ شامل کرنے کی ناکام کوشش کی محدثین نے اس کے جھوٹ کی قلعی کھول دی اور ضعیف و وضاع راویوں کو طشت از بام کر دیا۔