سوال:
کیا حدیث میں رفع الیدین کرنے کو شریر گھوڑوں کی دم ہلانے سے تشبیہ دی گئی ہے؟
جواب:
❀ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا فى الصلاة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا ہے کہ میں آپ کو شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں سکون اختیار کریں۔“
(صحیح مسلم: 430)
① اس ”صحیح “حدیث میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی نہیں ہے، بلکہ محدثین کرام کا اجماع ہے کہ اس کا تعلق تشہد اور سلام سے ہے، نہ کہ قیام کے ساتھ۔
کیونکہ یہی روایت اختصار کے ساتھ مسند الإمام أحمد (93/5) میں بھی موجود ہے، جس میں وهم قعود (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس حال میں جاری فرمایا کہ صحابہ کرام تشہد میں بیٹھے ہوئے تھے) کے الفاظ ہیں۔ اس کی وضاحت و تائید دوسری روایت میں سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
”ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے، تو السلام علیکم ورحمة اللہ، السلام علیکم ورحمة اللہ کہتے، راوی حدیث نے ہاتھ کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ آپ کے لیے کافی ہے کہ ہاتھ اپنی ران پر رکھیں، پھر اپنے بھائی (ساتھ نماز پڑھنے والے) پر دائیں اور بائیں سلام کہیں۔“
(صحیح مسلم: 431)
اس حدیث نے اوپر والی حدیث کا مطلب واضح کر دیا، محدثین کا فہم سونے پر سہاگہ ہے، اس سے رفع الیدین کی منسوخیت کا دعویٰ درست نہیں، کیونکہ کسی محدث نے یہ حدیث عدم رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کی، نیز یہ کہ مومن کیسے تسلیم کر لے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خود کرتے رہے، وہی کام صحابہ کو کرتے دیکھا، تو سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دے دی؟
❀ علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (792ھ) لکھتے ہیں:
”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا اور نماز میں سکون کا حکم فرمایا، نیز یہ کہنا کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے منافی ہے، یہ استدلال قوی نہیں، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے، ہم (صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے تھے، ہم سلام پھیرتے تو ہاتھوں سے (اشارہ کر کے) السلام علیکم کہتے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا تو فرمایا، کیا بات ہے آپ ہاتھوں کے ساتھ ایسے اشارہ کرتے ہیں، جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں، سلام پھیریں تو (ساتھ والے) بھائی کی طرف منہ کر کے پھیریں، ہاتھ سے اشارہ نہ کریں۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی تسلیم نہیں کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی کرتا ہے، کیونکہ سکون سے مراد یہ نہیں کہ نماز میں بالکل حرکت ختم کر دی جائے، بلکہ نماز کے منافی حرکت کی نفی ہے، دلیل ہے کہ رکوع، سجدہ، تکبیر تحریمہ، قنوت کی تکبیر اور عیدین کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین مشروع ہے (وہ بھی تو حرکت ہے)۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حرکت دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہوگئی، تو اسے کہا جائے گا کہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین بھی دلیل کے ساتھ (ممانعت سے) خارج ہوگئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس (صحیح مسلم کی حدیث جابر) سے مراد سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے۔“
(التنبيه على مشكلات الهداية: 571/2-572)
اہل علم اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ جوڑتے ہیں، کسی امام، محدث نے اسے رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعت سے اٹھتے وقت رفع الیدین کی ممانعت پر دلیل نہیں بنایا۔ فہم حدیث میں محدثین کا فہم ہی حجت ہے۔