حدیث “میری روح میرے جسم میں لوٹائی جاتی ہے” کی تحقیق اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حیات پر استدلال کا جائزہ
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد 1 – اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 621

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور درود کا جواب

سوال

ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کے حوالے سے سوال ہے کہ جس میں آیا ہے:
"جو شخص مجھ پر سلام پڑھتا ہے، میری روح میرے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور میں جواب دیتا ہوں۔”
یہ حدیث سند کے لحاظ سے کیسی ہے؟ بریلوی حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

حدیث کا ماخذ

یہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے:

سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ
کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور: حدیث نمبر 2041

مسند احمد
جلد 2، صفحہ 527

علماء کی رائے اور تحقیق

ابن الملقن نے اس روایت کو اپنی کتاب
تحفۃ المحتاج، حدیث نمبر 1151
میں "صحیح” قرار دیا ہے۔

✿ دیگر محدثین نے بھی اس روایت کی صحت کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

سند کی کیفیت اور اس میں ضعف کی وجہ

اگرچہ بعض محدثین نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، لیکن راجح قول (زیادہ درست بات) کے مطابق اس روایت کی سند ضعیف (کمزور) ہے۔

راوی کی حیثیت:

یزید بن عبداللہ بن قُسیط وہ راوی ہیں جنہوں نے سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔

سماع کا ثبوت:

✿ یزید بن عبداللہ کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع (براہِ راست سننا)
ثابت ہے۔
حوالہ:
السنن الکبری للبیہقی (جلد 1، صفحہ 122) – اس کی سند حسن ہے۔

مسئلہ اس خاص روایت میں:

✿ تاہم اس مخصوص روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع کا
تصریحی ثبوت موجود نہیں۔
✿ یزید بن عبداللہ کی عمومی روایات تابعین سے ہوتی ہیں، یعنی وہ تابعین سے صحابہ کی احادیث نقل کرتے ہیں۔
✿ اس خاص سند میں سماع کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے انقطاع (سند میں وقفہ یا ناپختگی) کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق

✿ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی تحقیق کرتے ہوئے سند کے انقطاع کو واضح کیا ہے۔
✿ اسی وجہ سے اس روایت کو "حسن” قرار دینا درست نہیں ہے۔

والعلم عند اللہ عزوجل
(شہادت: اکتوبر 2003ء)

نتیجہ

✿ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لہٰذا اس سے قبر میں حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر براہِ راست استدلال کرنا درست نہیں۔
✿ تاہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت اور اس کے اثرات کا انکار نہیں کیا جاتا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1