حدیث قلتین کیا ہے؟ اور اس کی استنادی حیثیت کیا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

حدیث قلتین کیا ہے؟ اور اس کی استنادی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی کے متعلق سوال ہوا، جس پر جانور اور درندے وارد ہوتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث.
’’جب پانی دو قلے (مٹکے) ہو، تو (گندگی گرنے سے جب تک اس کا رنگ، بو یا ذائقہ نہ بدلے) ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 26/2، سنن أبي داود: 63، واللفظ له، سنن النسائي: 52)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (92) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (1249) نے صحیح قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (132/1-133) نے امام بخاری و امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ امام طبری رحمہ اللہ نے ”صحیح “قرار دیا ہے۔
(تهذيب الآثار [مسند ابن عباس]: 736/2)
اس حدیث کو جمہور ائمہ حدیث نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ علامہ رافعی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
’’اکثر محدثین ان دونوں روایات کو صحیح کہتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ عبداللہ اور عبیداللہ دونوں نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے۔‘‘
(البدر المنير: 409/1)
❀ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قلتین والی حدیث کے متعلق اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث حسن اور قابل حجت ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوى: 41/21)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کے صحیح ہونے کے لیے یہ گواہی کافی ہے کہ زمینی ستاروں کے جیسے محدثین نے اسے صحیح کہا ہے اور اس کے مطابق مذہب بنایا ہے، یہ محدثین قدوہ ہیں اور احکام و مسائل میں انہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔‘‘
(معالم السنن: 36/1)
❀ حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ سند مسلم کی شرط پر ہے۔‘‘
(التلخيص الحبير لابن حجر: 36/1)
❀ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے ”صحیح “قرار دیا ہے۔
(شرح معاني الآثار: 16/1)
❀ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث صحیح ثابت ہے، اس میں کوئی ضعف نہیں۔‘‘
(المحلى بالآثار: 151/1)
❀ حافظ جوزجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
(الأباطيل: 321)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث حسن ثابت ہے۔‘‘
(المجموع شرح المهذب: 112/1)
❀ حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے ”صحیح “کہا ہے۔
(الأحكام الوسطى: 155/1)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث صحیح ثابت ہے۔‘‘
(البدر المنير: 404/1)
❀ علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کے متن میں کوئی طعن نہیں، کیونکہ یہ مشہور اور قابل عمل حدیث ہے۔ اس کے رواۃ ثقہ اور عادل ہیں۔ (سند کا) یہ اختلاف موجب ضعف نہیں، کیونکہ اس حدیث کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے دو بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ نے ایک ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘
(الشافي في شرح مسند الشافعي: 80/1)
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے بھی ”صحیح “کہا ہے۔
(طبقات الشافعية الكبرى للسبكي: 245/2)
اس کے علاوہ اور کئی اہل علم نے اس حدیث کو قابل حجت قرار دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے