حدیث: قبر والے کے لیے دو رکعتیں دنیا کی ہر چیز سے بہتر – تحقیق، سند اور رواۃ کی تفصیل
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد 1 – اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 610

صاحبِ قبر کی دو رکعتیں – حدیث کی تحقیق اور سند کی تفصیل

اصل حدیث:

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بقبر، فقال: "من صاحب هذا القبر؟” فقالوا: فلان، فقال: "ركعتان أحب إلى هذا من بقية دنياكم"

ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "یہ قبر کس شخص کی ہے؟” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: فلاں شخص کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس قبر والے شخص کے نزدیک دو رکعتوں کا پڑھنا تمھاری دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ پسندیدہ ہے۔”

(رواہ الطبرانی فی الاوسط، درجالہ ثقات، مجمع الزوائد 2/516)

تحقیق الحدیث:

روایت کی سند:

امام طبرانی نے اس روایت کو اپنی کتاب المعجم الأوسط میں روایت کیا:

"حدثنا احمد قال: حدثنا حفص بن عبد الله الحلواني قال: حدثنا حفص بن غياث عن أبي مالك الأشجعي عن أبي حازم عن أبي هريرة…”

(المعجم الأوسط، جلد 1، صفحات 502-503، حدیث نمبر 924)

امام طبرانی نے وضاحت کی کہ:

"لم يرو هذا الحديث عن أبي مالك، إلا حفص بن غياث، تفرد به: حفص بن عبد الله”

یعنی: یہ حدیث ابو مالک سے صرف حفص بن غیاث نے روایت کی ہے اور حفص بن عبد الله اس روایت میں منفرد ہیں۔

رواۃ کی تحقیق:

1. احمد بن یحییٰ الحلوانی:

  • ان کا ذکر سیراعلام النبلاء (13/578) میں بغیر کسی توثیق کے ہے۔
  • دکتور محمد سعید البخاری نے کتاب الدعاء (ج1، ص153) میں فرمایا: "مجھے ان کا ذکر نہیں ملا۔”

2. حفص بن غیاث:

  • حفص بن غیاث مدلس تھے۔

حافظ ابن سعد رحمہ اللہ علیہ:
> "وہ ثقہ مامون تھے، سوائے یہ کہ وہ تدلیس کرتے تھے۔”
(الطبقات الکبری، 6/390)

حافظ اثرم نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ سے نقل کیا:
> "بے شک حفص تدلیس کرتے تھے۔”
(تہذیب التہذیب، ج2، ص359)

مدلسین میں ان کا ذکر:

  • دارقطنی (طبقات المدلسین، المرتبہ الاولیٰ)
  • علائی (جامع التحصیل، ص106)
  • ابو زرعہ بن العراقی (کتاب المدلسین، ص13)
  • سیوطی، ابو محمود المقدسی، مفسر الدمینی
    (التدلیس فی الحدیث، 1/21)

اصول المحدثین کے مطابق مدلس کی روایت کا حکم:

امام شافعی رحمہ اللہ علیہ:
"لا نقبل من مدلس حديثاً حتى يقول فيه: حدثني أو سمعت”
(الرسالۃ، ص380، فقرہ 1035)

یعنی: "ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ ‘حدثنی’ یا ‘سمعت’ نہ کہے (یعنی سماع کی تصریح نہ کرے)۔”

ابن الصلاح الشہرزوری:
"والحكم بأنه لا يقبل من المدلس حتى يبين قد أجراه الشافعي فيمن عرفناه دلس مرة”
(علوم الحدیث، ص35، نوع 12)

یعنی: "یہ حکم کہ مدلس کی روایت قبول نہ کی جائے جب تک وہ تصریح نہ کرے، امام شافعی رحمہ اللہ نے اس پر بھی جاری کیا جس کے بارے میں صرف ایک مرتبہ تدلیس ثابت ہو۔”

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی رائے:

  • حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حفص بن غیاث کو غیر مدلسین میں ذکر کیا ہے:
    (نظر النکت علی ابن الصلاح، 2/637)
  • نیز انھیں المرتبہ الاولیٰ میں شمار کیا، لیکن یہ قول بلا دلیل ہے۔

خلاصہ:

یہ روایت دو بنیادی علتوں (کمزوریوں) کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

  1. راوی حفص بن غیاث کی تدلیس (اور روایت میں سماع کی تصریح نہیں)
  2. روایت کے دوسرے راوی احمد بن یحییٰ الحلوانی کی توثیق نہ ہونا

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

(شہادت: اپریل 2003ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1