اس حدیث کا معنی: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“
یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام بخاری اور مسلم نے حضرت نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا۔ ان کی والدہ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گواہی نہ دیں، لہٰذا بشیر بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اپنے اس کام کے متعلق بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”کیا تم نے اپنی اولاد میں سے ہر ایک کو اس کے مثل دیا ہے، جو نعمان کو دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587 صحيح مسلم 1622/18]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تحفہ دیتے وقت اپنی اولاد میں کسی ایک کو ترجیح دینی چاہیے، نہ تخصیص کرنی چاہیے، ساری ہی اس کی اولاد ہے اور ہر ایک سے حسن سلوک کی امید رکھی جاتی ہے، لہٰذا کچھ کو چھوڑ کر کچھ کو تحائف کے لیے خاص کرنا جائز نہیں۔
تا ہم علما کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ آیا اولاد کو مساوی قرار دیا جائے اور لڑکا ایک لڑکی کے برابر ہو یا وراثت کی طرح لڑکے کولڑ کی پر ترجیح دی جائے؟
اہل علم کے دو اقوال ہیں، اور راجح قول یہ ہے کہ عطیہ وراثت کی طرح ہے، ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے مساویانہ دے کر برابری کی جائے، کیونکہ وراثت میں اللہ تعالیٰ نے یہی تقسیم رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ انصاف پرور ہے، لہٰذا ایک مومن کو اپنی اولاد کو عطیہ دیتے وقت بھی ایسا ہی کرنا چاہیے جس طرح اگر وہ اپنے مرنے کے بعد انہیں پیچھے چھوڑتا تو ایسے ہی کیا جاتا۔
یہ ہے ان کی نسبت اور ان کے والدین کی نسبت عدل کا معاملہ۔ تاہم والدین کی یہی ذمے داری ہے کہ اولاد کو «لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ» ذکر کے لیے دو مؤنثوں کے برابر) کے قانون کے مطابق دیں، اس طرح ان کے درمیان یہ عدل کے ساتھ اور مساویانہ تقسیم ہوگی جس طرح اللہ تعالیٰ نے وراثت میں کی ہے اور وہ ماں باپ سے زیادہ عدل گستر ہے۔
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات: 48/20]