حدیث "سات مواقع پر رفع الیدین” کی استنادی حیثیت
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

حدیث: ”صرف سات مواقع پر رفع الیدین کیا جائے“ کی استنادی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے:
ترفع الأيدي فى سبعة مواطن: إذا قام إلى الصلاة، وإذا رأى البيت، وعلى الصفا والمروة، وفي عرفات، وفي جمع وعند الجمار
”سات مقامات پر رفع الیدین کیا جائے: نماز کے لیے کھڑا ہو، جب بیت اللہ کو دیکھے، کوہ صفا اور کوہ مروہ پر، عرفات میں، مزدلفہ میں اور جمرات کے پاس۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 235/2-236)
① سند ضعیف ہے، عطاء بن السائب (حسن الحدیث) ”مختلط “ہیں اور ابن فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔
❀ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عطاء بن السائب ”مختلط “ہیں۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 334/6)
❀ امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی (الجرح والتعديل: 334/6) اور امام دارقطنی (العلل: 186/5، 288/8) رحمہم اللہ نے انہیں ”مختلط “قرار دیا ہے۔
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”عطاء بن السائب سے جو کچھ ابن فضیل نے روایت کیا ہے، اس میں غلطیاں اور اضطراب ہے۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 334/6)
یہ جرح مفسر ہے، لہذا سند ”ضعیف “ہے، اس قول میں قنوت وتر اور عیدین کے رفع الیدین کا بھی ذکر نہیں ہے، وہ کیوں کیا جاتا ہے؟
② ابو حمزہ (عمران بن ابی عطاء القصاب، ثقة عند الجمهور) رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رأيت ابن عباس يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع
”میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے دیکھا۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 239/1، وسنده حسن)
اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:
① سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے۔
② نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا رفع الیدین کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔

فائدہ:

یہ روایت مرفوعاً بھی مروی ہے، لیکن اس کی سند بھی ”ضعیف “ہے، اس میں ابن ابی لیلیٰ راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف ہی الحفظ“ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے