سیدنا رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے۔ اس روایت کے بارے میں محدثین و علمأ کرام آراء پیش خدمت ہے۔
اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے مسند احمد حدیث رقم ٢٣٨٧، امام ابو یعلی نے مسند ابو یعلی میں حدیث رقم ٤٢٩٥، دوسرا نسخہ ٠٠۵٢، امام بہقی نے سنن الکبری حدیث رقم ١٤٩٨٧، اور امام ابو نعیم اصبہانی نے معرفہ الصحابہ ال ابی نعیم حدیث رقم ٢٨٠٣ میں داؤد بن حصین عن عکرمہ کی سند سے روایت کیا ہےاس روایت کے بارے میں فضیلتہ الشیخ موالنا مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سند کو بڑے بڑے جلیل القدر آئمہ محدثین کرام نے صحیح قرار دیا ہے جیسے امام احمد بن حنبل (مجموعہ الفتاوی جلد٢ ص ٦٧ )اعالم الموقعین جلد ٢ ص ٢١٧)، امام ابو یعلی (فتح الباری جلد٢ ص ٣٦٢)امام ابن كثیر (تحفہ االحوذی جلد ٢ ص ١٩٦)، امام یزید بن ہارون (عون العبود جلد٢ ص٢٣٩)، امام ابن تیمیہ (مجموعہ الفتاوی جلد٢)محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی (ارواء الغلیل جلد٧، ص ١٤٥)
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہ حدیث اس مسئلہ میں نص ہے جو کسی قسم کی تاویل قبول نہیں کرتی، (فتح الباری جلد٩ ص ٣٦٢)
شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں اسناد صحیح (تخریج مسند احمد جلد٤ ص ١٢٣)
قاضی شوکانی فرماتے ہیں اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے نکالا ہے اور ابو یعلی نے اس صحیح قرار دیا ہے اور یہ حدیث محل نزاع میں نص ہے
(نیل االوطار، نیز دیکھیں ترمذی حدیث رقم ١١٤٣، مقدمہ ایک مجلس کی تین طلاق اور ان کا شرعی حل ص ١٣ تا ١٤)
تبصرہ
امام احمد بن حنبل کا قول مجموعہ الفتاوی و اعالم الموقعین میں بے سند ہے۔
امام ابو یعلی کا قول فتح الباری میں بے سند ہے۔
امام ابن کثیر کا قول تحفہ االحوذی میں بے سند ہے۔
امام یزید بن ہارون کا قول عون العبود میں بے سند ہے۔
اور بے سند بات (کسی کی بھی) حجت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے خود تسلیم کیا کہ داؤد بن حصین عن عکرمہ ثقہ نہیں ہیں (تقریب التہذیب۵١٧٨) اور رکانہؓ والی روایت کو ضعیف کہا ہے
(دیکھیے تلخیص الحبیر جلد٣ ص٢١٣ رقم ١٦٠٣)
جامع ترمذی حدیث رقم ١١٤٣ میں بے شک امام ترمذی نے کہا ہے اس حدیث کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس میں اس حدیث کے متن کا علم نہیں ہے ہو سکتا ہے اس میں داؤد بن حصین کے حافظے میں کوئی غلطی ہوتی ہو
(جامع ترمذی تحت الحدیث ١١٤٣)
ان کے مقابل بہت سے جلیل القدر آئمہ محدثین و علماءکرام نے داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو ضعیف و منکر کہا ہے۔
مثال نمبر١۔۔۔، امام سفیان بن عیینہ (متوفی ١٩٨ ھ) فرماتے ہیں کہ ہم اس (داؤد بن حصین)کی روایت سے گریز کرتے ہیں
(الجرح التعدیل جلد٣ ص ٤٠٩ رقم ١٨٧٤و سندہ صحیح)
نمبر٢۔۔۔، امام علی بن المدینی (متوفی ٢٣٤ ھ) نے فرمایا کہ داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت منکر ہے
(الجرح والتعدیل جلد٣ ص ٤٠٩ رقم ١٨٧٥)
امام علی بن المدینی مزید فرماتے ہیں مجھے داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت سے زیادہ مرسل شعبی وسعید بن مسیب کی روایتوں سے محبت ہے
(الضعفا الکبیر للعقیلی جلد٢ ص٣٥ ترجمه ٤٥٩ بحوالہ مکتبہ الشاملہ۔)
نمبر٣۔۔۔، امام یحیی بن معین (متوفی٢٣٣سنہ ھ) نے فرمایا امام مالک نے داؤد بن حصین کی روایت کو ترک کر دیا
(تاریخ ابن معین جلد٣ ص ١٩٤ ترجمہ روایہ الروری و الجرح والتعدیل جلد ٣ ص ٤٠٩ رقم ١٨٧٤)
نمبر٤۔۔۔، امام ابو حاتم الرازی (متوفی ٢٧٧سنہ ھ( نے ایسے ہی کہا ہے
(الجرح والتعدیل جلد ٣ ص ٤٠٩)
امام ابو حاتم الرازی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو منکر شمار کرتے تھے
(العلل الحدیث جلد٢ ٢٦٠ رقم ٢٢٧٤ دوسرا نسخہ جلد۵ ص ١۵ رقم ٢٢٧٤)
نمبر۵۔۔۔، امام احمد بن حنبل نے اس روایت کے بارے میں فرمایا یہ روایت ثابت نہیں ہے اور رافضی شیعہ تین طلاقوں کو ایک سمجھتے ہیں
(سوالات امام احمد بن حنبل روایہ ابو داؤد ص ١٧٠ دوسرا نسخہ ص ٢٣٦)
نمبر٦۔۔۔، امام بخاری نے بھی رکانہؓ والی روایت کو ضعیف کہا ہے
(العلل الکبیر ص١٧١ رقم ٢٩٨، الشاملہ العلل الکبیر جلد١ ص ٤٦١بحوالہ مسند احمد جلد٤ ص٢٦١ حاشیہ)
نمبر٧۔۔۔، حافظ منذری نے بھی امام بخاری کی یہی بات نقل کی ہے اور کوئی تردید نہیں کی
(مختصرسنن ابو داؤد جلد٣ ص ١٣٤ بحوالہ مسند احمد جلد٤ ص ٢١٨ حاشیہ)
نمبر٨۔۔۔، امام ابو داؤد نے بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو منکر کہا ہے
(میزان الاعتدال جلد٣ ص ٥ رقم ٢٦٠٠ دوسرا نسخہ جلد٢ ص ٢٥٤ رقم ٢٦٠٦ تھذیب التھذیب جلد٣ ص ١٥٧ تھذیب الكمال جلد٨ ص ٣٨١ وغیرہ)
بعض علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ امام ابو داؤد کے قول کی سند پیش کی جائے؟
اس قول کی سند کیلئے دیکھیے سوالات امام احمد بن حنبل ص١٧٠ دوسرا نسخہ ص ٢٣٦ جب امام ابو داؤد نے امام احمد بن حنبل سے رکانہ والی روایت کے بارے میں پوچھا تو امام احمد بن حنبل نے اس روایت کو ضعیف کہا اور امام ابو داؤد نے امام احمد بن حنبل کی کوئی تردید نہیں کی (والحمد اللہ) اور اصول ہے کہ محدثین ہی حدیث کے بارے میں صحیح فہم رکھتے ہیں۔
نمبر٩۔۔۔، امام خطابی نے رکانہؓ والی روایت کو ضعیف کہا ہے (معالم السنن جلد٣ ص ٢٣٦)امام خطابی نے مزید کہا کہ امام احمد بن حنبل نے اس طرح کی ساری احادیث کو ضعیف کہا ہے
(دیکھیے معالم السنن ٢٣٦)
نمبر١٠۔۔۔، ابن قدامہ نے بھی ایسے ہی کہا ہے اور کوئی تردید نہیں کی
(المغنی جلد١٠ ص ٣٦٦)
نمبر١١۔۔۔، امام بہیقی نے کہا اس سند کے ساتھ یہ روایت حجت نہیں ہے کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی آٹھ روایتیں اور انکا فتوی اس روایت کے خلاف ہے اور رکانہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اوالد کی روایت میں ایک طلاق کا ذکر آیا ہے
(سنن الکبری للبہیقی جلد ٧ ص٣٣٩ رقم ١٤٧٦٤ دوسرا نسخہ جلد٧ ص ۵۵۵ رقم ١٤٩٨٧)
نمبر١٢۔۔۔، حافظ ذھبی بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو مناکیر میں شمار کرتے ہیں
(میزان الاعتدال جلد٣ ص ۵ ترجمہ ٢٦٠٠)
نمبر١٣۔۔۔، حافظ ابن حجر عسقلانی بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کو ثقہ نہیں سمجھتے (تقریب التہذیب ۵١٧٨ اور تلخیص الحبیر میں اس روایت کو محلول کہا ہے
(دیکھیے جلد٣ ص٢١٣ رقم ١٦٠٣)
نمبر١٤۔۔۔، محدث جوزجانی فرماتے ہیں محدثین اس (داؤد بن حصین)کی روایت کو قابل تعریف نہیں سمجھتے
(تہذیب التہذیب جلد٣ ص١٨١)
نمبر۱۵۔۔۔، شیخ أرناط اور انکے ساتھیوں نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے
(مسند احمد جلد٤ ص ٢١٦ حاشیہ)
نمبر١٦۔۔۔، استاد محترم محدث العصر حافظ محمد زبیر علی ذئی رحمہ اللہ تعالی نے بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو ضعیف قرار دیا
(دیکھیے انوار الصحیفہ فی االحادیث الضعیفہ من السنن االربعہ ص ۵٨ طبع اول ١٤٢٣سنہ ھ المکتبہ االسالمیہ)
نمبر١٧۔۔۔، استاد محترم محدث العصر حافظ محمد زبیر علی ذئی رحمہ اللہ تعالی کے شاگرد حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ نے بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے
(دیکھیے سنن ابن ماجہ تخریج حافظ ندیم ظہیر جلد٢ ص ۵٢١ حدیث رقم ٢٠٠٩)
نمبر١٨۔۔۔، شیخ مقبل بن ھادی نے بھی داؤد بن حصین عن عکرمہ کی روایت کو منکر کہا ہے
(نشر الصحیفہ ص ٢٤٦ او أحادیث معلة ظاھرھا الصحة جلد١ ص ٢٠٨ بحوالہ مکتبہ الشاملہ)
اور شیخ مقبل بن ھادی ان احادیث جن میں علت پائی جاتی ہو ان کے بارے میں اپنا بہترین مؤقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ألن أعرف علة حدیث ھو عندي أحب إلي من أن أكتب عشرین حدیثا لیس عندي) اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے پاس جو حدیث ہے اس میں علت ہے تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اسے نہ لکھوں اور ایسی بیس ٢٠ حادیث کو لکھ لوں جو میرے پاس موجود نہ ہوں
(قواعد العلل و قرائن الترجیح جلد ١ ص ١٣)