سوال
’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں‘‘
کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں۔ براہ کرم علم اسماء الرجال کی روشنی میں ان روایات کی تحقیق فرمائیں کہ یہ کس درجے کی ہیں؟
روایت نمبر ۱
حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں رو رہے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے (حسین رضی اللہ عنہ) کو قتل کرے گی۔ جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں انہیں قتل کیا جائے گا۔‘‘
(مشکوٰۃ، بیہقی فی دلائل النبوۃ)
تحقیق:
یہ روایت، دلائل النبوۃ للبیہقی (جلد ۶، صفحہ ۴۶۹) میں حضرت محمد بن مصعب، الاوزاعی، اور شداد بن عبداللہ کی سند سے منقول ہے۔ اس روایت کی سند محمد بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(حوالہ: اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر ۶۱۷۱)
محمد بن مصعب بن صدقہ القرقسائی کے بارے میں محدثین کی آراء:
◈ امام احمد بن حنبل: محمد بن مصعب کی اوزاعی سے روایت مقارب (یعنی صحت یا حسن کے قریب) ہوتی ہے۔
(مسائل ابی داود: ۳۲۸، بحوالہ موسوعۃ اقوال الامام احمد ۳۱۷/۳، ۳۱۸، تاریخ بغداد جلد ۳، صفحہ ۲۷۷۔ سندہ صحیح)
◈ ابوزرعہ الرازی:
’’محمد بن مصعب اوزاعی وغیرہ سے بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔‘‘
(کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰)
◈ حافظ ابن حبان:
محمد بن مصعب کی اوزاعی سے منقول ایک روایت کو باطل کہا۔
(کتاب المجروحین، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴)
◈ ابو احمد الحاکم:
’’اس نے اوزاعی سے منکر احادیث روایت کی ہیں۔‘‘
(تہذیب التہذیب، جلد ۹، صفحہ ۴۶۱، ممکنہ حوالہ: کتاب الکنی لابی احمد الحاکم)
نتیجہ:
ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ راجح موقف یہی ہے کہ محمد بن مصعب کی اوزاعی سے روایت ضعیف ہی ہے، اسے ’’مقارب‘‘ کہنا درست نہیں۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
روایت نمبر ۲
’’حسین منی وانا من حسین، احب اللہ من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط‘‘
یہ حدیث درج ذیل سند کے ساتھ آئی ہے:
عبداللہ بن عثمان بن خثیم → سعید بن ابی راشد → یعلی العامری
یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں موجود ہے:
◈ مسند الامام احمد (۴/۱۷۲)
◈ فضائل الصحابۃ للامام احمد (حدیث نمبر ۱۳۶۱)
◈ مصنف ابن ابی شیبہ (۱۲/۱۰۲، ۱۰۳، حدیث نمبر ۳۲۱۸)
◈ المستدرک للحاکم (جلد ۳، صفحہ ۱۷۷، حدیث نمبر ۴۸۲۰)
➤ الحاکم: ’’یہ حدیث صحیح الاسناد ہے‘‘
➤ الذھبی: ’’صحیح‘‘
◈ صحیح ابن حبان (الاحسان: حدیث نمبر ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱)
◈ المعجم الکبیر للطبرانی (۳/۳۳، حدیث ۲۵۸۹ اور ۲۲/۲۷۴، حدیث ۷۰۲)
◈ سنن ابن ماجہ (حدیث ۱۴۴)
◈ سنن الترمذی (حدیث ۳۷۷۵)
➤ ترمذی: ’’یہ حدیث حسن ہے‘‘
حدیث کی سند اور راویوں پر تحقیق:
◈ سند کا درجہ:
اس حدیث کی سند حسن ہے۔
◈ ائمہ حدیث کے اقوال:
➤ ابن حبان، حاکم، اور ذہبی: اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
➤ ترمذی: حدیث کو حسن کہا ہے۔
➤ بوصیری: ’’یہ اسناد حسن ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘
◈ راوی: سعید بن ابی راشد
➤ حافظ ذہبی: ’’صدوق‘‘
(الکاشف، جلد ۱، صفحہ ۲۸۵، ترجمہ نمبر ۱۹۰۰)
➤ ابن حبان، ترمذی اور حاکم: انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
➤ بعض افراد کا یہ کہنا کہ ’’ان کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے‘‘ غلط اور باطل ہے۔
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ:
اگرچہ انہوں نے بعض جروحات بیان کیں، مگر شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو حسن قرار دیا اور اسے اپنی مشہور کتاب السلسلۃ الصحیحہ میں درج کیا:
(جلد ۳، صفحہ ۲۲۹، حدیث نمبر ۱۲۲۷)
خلاصہ:
یہ حدیث حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب