جناتی بندر اور زنا کے حوالے سے ایک حدیث کا مفہوم اور محمد رفیع صاحب کا تبصرہ
سوال
محمد رفیع صاحب، جو ’’ریسرچ فیلو ادارہ اشراق لاہور‘‘ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک حدیث کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بخاری میں بھی غلط احادیث موجود ہیں، مثلاً بخاری کی یہ حدیث کہ عمرو بن میمون کہتے ہیں: ’میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، اس نے زنا کیا تھا اور اس کے پاس بہت سے بندر جمع تھے (میرے سامنے) ان بندروں نے اسے سنگسار کیا (یہ دیکھ کر) میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا۔‘
[بخاری، رقم: ۳۸۴۹]
اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں ہی یکساں طور پر انسانی شریعت کے مکلف ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
اس بیان کے تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد رفیع صاحب کا یہ اعتراض درست ہے؟ کیا یہ حدیث واقعی طور پر غلط ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محمد رفیع صاحب کی بیان کردہ بات میں ذرہ برابر بھی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ جس روایت پر وہ اعتراض کر رہے ہیں، وہ سند کے اعتبار سے "حسن لذاتہ” اور متن کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔
اس روایت کی تفصیلی تحقیق کے لیے درج ذیل مراجع کا مطالعہ مفید رہے گا:
◈ ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ ۲۴، صفحہ ۲۰
اس روایت کی نوعیت:
◈ یہ نہ تو حدیثِ رسول ﷺ ہے
◈ اور نہ ہی اثرِ صحابی ہے
◈ بلکہ یہ ایک تابعی (عمرو بن میمون) کا قول ہے۔
"بندروں” سے مراد:
◈ اس روایت میں جن بندروں کا ذکر ہے، ان سے مراد "جنّات” ہیں۔
اس کی تائید درج ذیل ماخذات سے ہوتی ہے:
◈ فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۱۶۰
◈ ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ ۲۴، صفحہ ۲۰
جنات کے بارے میں مسلمہ حقیقت:
◈ یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ جنات ایک مکلف مخلوق ہیں۔
◈ اور یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ جنات مختلف اشکال اختیار کر سکتے ہیں۔
لہٰذا ایک تابعی کے ایسے قول پر اعتراض کرنا بے محل اور عجیب و غریب ہے۔
ھٰذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب