حدیث الصلاۃ عماد الدین کی صحت کا تفصیلی جائزہ

سوال

حدیث "الصلاة عماد الدین” کی صحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

حدیث "الصلاة عماد الدین” کو علماء حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔

امام سیوطی نے اس حدیث کو جامع الصغیر میں ذکر کیا ہے۔
امام سخاوی نے اسے اپنی کتاب المقاصد الحسنة میں نقل کیا ہے۔
امام البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

صحیح حدیث

حدیث کے مفہوم کے قریب ایک صحیح روایت جامع الترمذی میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے امام البانی نے صحیح قرار دیا ہے:

حدیث کا متن:

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ:‏‏‏‏ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ”
[سنن الترمذی: 2616]

ترجمہ:

’’کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا مرکز نہ بتادوں؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اسے قابو میں رکھو۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بول ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے۔‘‘

نتیجہ

حدیث "الصلاة عماد الدین” ضعیف ہے۔
تاہم، صحیح حدیث میں نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ جامع الترمذی کی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے