سوال :
حج یا عمرہ کے لیے مکہ جانے والے نماز قصر کریں گے یا پوری پڑھیں گے؟
جواب :
حج یا عمرہ کے لیے مکہ آنے والا بھی مسافر ہے، وہ نماز قصر کرے گا۔ اگر مقیم امام کے ساتھ نماز پڑھے، تو نماز مکمل پڑھے گا۔
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء على أن الحاج القادم مكة يقصر الصلاة بها وبمنى وسائر المشاهد، لأنه عندهم فى سفر، إذ ليست مكة دار إقامة إلا لأهلها أو لمن أراد الإقامة بها.
” اہل علم کا اتفاق ہے کہ مکہ میں آنے والا حاجی (یا عمرہ کرنے والا) مکہ، منیٰ اور دیگر مقامات پر نماز قصر کرے گا، کیونکہ وہ حالت سفر میں ہے، اس لیے کہ مکہ صرف ان کے لیے اقامت گاہ ہے، جو مکہ میں رہائش پذیر ہیں یا مکہ میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔“
(شرح صحيح البخاري: 68/3 ، التوضيح لابن ملقن: 440/8)
❀ موسیٰ بن سلمہ ہذلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سألت ابن عباس كيف أصلي إذا كنت بمكة إذا لم أصل مع الإمام؟ فقال: ركعتين سنة أبى القاسم صلى الله عليه وسلم.
” میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میں مکہ ہوں اور جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکوں، تو کتنی رکعت پڑھوں؟ فرمایا: دورکعت ادا کریں، یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔“
(صحیح مسلم: 688)
❀ عبد الرحمن بن یزید نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
صلى بنا عثمان بن عفان رضى الله عنه بمنى أربع ركعات، فقيل ذلك لعبد الله بن مسعود رضي الله عنه، فاسترجع، ثم قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، وصليت مع أبى بكر الصديق رضى الله عنه بمنى ركعتين، وصليت مع عمر بن الخطاب رضى الله عنه بمنى ركعتين، فليت حظي من أربع ركعات ركعتان متقبلتان.
”سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ہمیں منی میں چار رکعت نماز پڑھائی، سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بارے پوچھا گیا، تو انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے منی میں دو دو رکعت ادا کیں۔ کاش کہ ان چار رکعات میں سے میری دو رکعت ہی قبول ہو جائیں۔“
(صحيح البخاري: 1084 ، صحیح مسلم: 695)
اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو امام چار رکعت نماز پڑھائے، اس کی اقتدا میں چار ہی پڑھنی ہیں، دورکعت نہیں پڑھ سکتے۔
❀ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن ابن عمر أقام بمكة عشر ليال يقصر الصلاة، إلا أن يصليها مع الإمام فيصليها بصلاته.
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مکہ میں دس دن قیام کیا، آپ نماز قصر ادا کرتے رہے، البتہ اگر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے، تو امام کی طرح نماز ادا کرتے (یعنی مکمل نماز پڑھتے تھے)۔
(موطأ الإمام مالك: 148/1، وسنده صحيح)
❀ نیز بیان کرتے ہیں:
كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا صلى مع الإمام صلى أربعا، وإذا صلى وحده، صلى ركعتين.
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سفر میں) جب (مقیم) امام کی اقتدا میں نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب اکیلے پڑھتے تو دورکعت پڑھتے تھے۔“
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 2400 ، وسنده صحيح)