حج یا عمرہ میں کسی کو نائب بنانے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

نائب بنانے کا حکم: حج یا عمرہ میں کسی کو وکیل مقرر کرنا

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج یا عمرہ کے دوران کسی شخص کو اپنی طرف سے ادا کرنے کے لیے وکیل مقرر کرنے کے متعلق شریعت کا حکم درج ذیل تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

حج یا عمرہ میں وکالت کی دو اقسام

حج یا عمرہ کے لیے کسی کو وکیل بنانے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

فرض حج یا عمرہ کے لیے وکیل بنانا

نفل حج یا عمرہ کے لیے وکیل بنانا

1. فرض حج یا عمرہ کے لیے وکیل مقرر کرنے کا حکم

فرض حج یا عمرے کے لیے کسی کو اپنا نائب یا وکیل بنانا عام حالات میں جائز نہیں، سوائے اس کے کہ:

شخص خود بیت اللہ تک جانے کے قابل نہ ہو

✿ اس کا سبب کوئی دائمی بیماری ہو جس سے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو

✿ یا وہ انتہائی بڑھاپے کا شکار ہو

اگر بیماری ایسی ہو جس سے شفا کی امید ہو تو انسان کو انتظار کرنا چاہیے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ عافیت عطا فرمائے اور وہ خود حج ادا کر سکے۔

اگر کوئی شخص اس قابل ہے کہ خود حج کر سکتا ہے تو:

✿ ایسے شخص کے لیے کسی اور کو وکیل مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

✿ شریعت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنا حج بذات خود ادا کرے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا﴾
… سورة آل عمران: 97
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھے وہ اس کا حج کرے۔‘‘

عبادات میں ذاتی ادا کی اہمیت

✿ عبادات کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے عجز و انکساری کے ساتھ حاضر ہو۔

✿ اگر کوئی شخص کسی اور کو وکیل بناتا ہے تو وہ اس عبادت کے اصل مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔

2. نفل حج یا عمرہ کے لیے وکیل مقرر کرنے کا حکم

اگر کوئی شخص فرض حج یا عمرہ ادا کر چکا ہے اور اب نفل حج یا عمرے کے لیے کسی کو وکیل بنانا چاہتا ہے تو:

علماء میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے:

➊ بعض علماء نے اسے جائز کہا ہے۔

➋ جبکہ بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔

صحیح رائے یہ ہے کہ نفل حج یا عمرے کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں ہے۔

✿ عبادات کی اصل یہی ہے کہ انسان انہیں خود ادا کرے۔

✿ جیسے کوئی انسان کسی دوسرے کو اپنی طرف سے روزہ رکھنے کا وکیل نہیں بنا سکتا، البتہ اگر وہ فوت ہو جائے اور اس پر فرض روزے باقی ہوں، تو ان روزوں کو اس کا ولی رکھ سکتا ہے۔

حج ایک بدنی عبادت ہے

✿ حج صرف مالی عبادت نہیں بلکہ بدنی عبادت ہے جسے انسان کو اپنے جسم کے ذریعے ادا کرنا ہوتا ہے۔

✿ بدنی عبادات کو کسی دوسرے کی طرف سے ادا کرنا درست نہیں، الا یہ کہ سنت سے اس کا جواز ثابت ہو۔

✿ نفل حج کے بارے میں سنت سے یہ ثابت نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کی رائے

✿ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت کے مطابق:

نفل حج یا عمرے کے لیے کسی کو وکیل مقرر کرنا درست نہیں، خواہ انسان خود اس کے قابل ہو یا نہ ہو۔

اس رائے پر عمل کرنے کا فائدہ

✿ صاحب استطاعت افراد، جو خود حج ادا کر سکتے ہیں، وہ اپنا حج خود ادا کریں گے۔

✿ اس سے یہ خرابی ختم ہو جائے گی کہ بعض لوگ کئی سالوں تک مکہ مکرمہ خود نہ جائیں اور ہر سال کسی اور کو اپنا وکیل بنا کر بھیجتے رہیں۔

✿ نتیجتاً وہ اس عظیم مقصد سے محروم رہتے ہیں جس کے لیے یہ فریضہ مقرر کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1