حج کے موقع پر کی قربانی
سوال : کیا حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب : حج کے موقع پر جو قربانی کی جاتی ہے وہ سنتِ ابراہیمی ہے۔
مفسر قرآن حکیم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ابوالطفیل نے سوال کیا :
«يزعم قومك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سعٰي بين الصفا والمروة وان ذٰلك سنة»
”آپ کی قوم کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی ہے اور یہ سنت ہے۔“ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ”انہوں نے سچ کہا ہے۔“
بلاشبہ جب ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا حکم دیا گیا تو سعی کے مقام پر شیطان ان کے سامنے آیا، اس نے آگے نکلنے کی کوشش کی تو ابراہیم علیہ السلام اس پر سبقت لے گئے پھر جبرائیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کو جمرہ عقبہ کے پاس لے گئے، پھر ان کے سامنے شیطان آ گیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ چلا گیا، جمرہ وسطی کے پاس پھر سامنے آ گیا، انہوں نے اسے پھر سات کنکریاں ماریں۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ اسماعیل علیہ السلام نے سفید قمیص زیب تن کی ہوئی تھی، وہ کہنے لگے : ”اے میرے ابا جان ! میرے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں۔“ ابراہیم علیہ السلام وہ قمیص اتارنے کی کوشش کرنے لگے تو انہیں پچھلی جانب سے آواز دی گئی : ”اے ابراہیم ! بلاشبہ تو نے خواب سچا کر دکھایا۔“ ابراہیم علیہ السلام نے جب مڑ کر دیکھا تو اچانک ایک سفید سینگوں والا مینڈھا موجود تھا۔“ [مسند أحمد 297/1، 437/4، المعجم الكبير 268/10، مسند طيالسي 2697، بيهقي 153/5، شعب الايمان 4077، تفسير ابن كثير352/5، تهذيب الآثار ص/60، تفسير طبري 516/2]
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا جب حکم ملا تھا اور شیطان کو جمرات کے پاس کنکریاں ماری تھیں، اس موقع پر اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک سفید مینڈھا قربانی کے لیے دے دیا اور ان کے خواب کو سچا کر دیا۔ لہٰذا حج کے موقع پر قربانی کرنا سنتِ ابراہیمی ہے، اس میں کسی بھی اہلِ علم کو اختلاف نہیں۔ یہ چند متجددین کے ناقص اجتہاد کا کرشمہ ہے، وہ ایسے شوشے چھوڑ کر اسلام کی تعلیمات پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں لیکن یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا اور تاقیامت سنتِ ابراہیمی زندہ رہے گی۔ «ان شاء الله !»
سوال : کیا حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب : حج کے موقع پر جو قربانی کی جاتی ہے وہ سنتِ ابراہیمی ہے۔
مفسر قرآن حکیم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ابوالطفیل نے سوال کیا :
«يزعم قومك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سعٰي بين الصفا والمروة وان ذٰلك سنة»
”آپ کی قوم کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی ہے اور یہ سنت ہے۔“ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ”انہوں نے سچ کہا ہے۔“
بلاشبہ جب ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا حکم دیا گیا تو سعی کے مقام پر شیطان ان کے سامنے آیا، اس نے آگے نکلنے کی کوشش کی تو ابراہیم علیہ السلام اس پر سبقت لے گئے پھر جبرائیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کو جمرہ عقبہ کے پاس لے گئے، پھر ان کے سامنے شیطان آ گیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ چلا گیا، جمرہ وسطی کے پاس پھر سامنے آ گیا، انہوں نے اسے پھر سات کنکریاں ماریں۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ اسماعیل علیہ السلام نے سفید قمیص زیب تن کی ہوئی تھی، وہ کہنے لگے : ”اے میرے ابا جان ! میرے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں۔“ ابراہیم علیہ السلام وہ قمیص اتارنے کی کوشش کرنے لگے تو انہیں پچھلی جانب سے آواز دی گئی : ”اے ابراہیم ! بلاشبہ تو نے خواب سچا کر دکھایا۔“ ابراہیم علیہ السلام نے جب مڑ کر دیکھا تو اچانک ایک سفید سینگوں والا مینڈھا موجود تھا۔“ [مسند أحمد 297/1، 437/4، المعجم الكبير 268/10، مسند طيالسي 2697، بيهقي 153/5، شعب الايمان 4077، تفسير ابن كثير352/5، تهذيب الآثار ص/60، تفسير طبري 516/2]
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا جب حکم ملا تھا اور شیطان کو جمرات کے پاس کنکریاں ماری تھیں، اس موقع پر اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک سفید مینڈھا قربانی کے لیے دے دیا اور ان کے خواب کو سچا کر دیا۔ لہٰذا حج کے موقع پر قربانی کرنا سنتِ ابراہیمی ہے، اس میں کسی بھی اہلِ علم کو اختلاف نہیں۔ یہ چند متجددین کے ناقص اجتہاد کا کرشمہ ہے، وہ ایسے شوشے چھوڑ کر اسلام کی تعلیمات پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں لیکن یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا اور تاقیامت سنتِ ابراہیمی زندہ رہے گی۔ «ان شاء الله !»