حج میں محرم عورت کا نقاب پہننا: حدیث کی روشنی میں حکم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

حج میں نقاب کے ساتھ چہرہ ڈھانپنے کا حکم

سوال:

حج میں چہرے کو نقاب کے ساتھ ڈھانپنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ایک حدیث کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ محرم عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول بھی موجود ہے کہ:

"سفر حج میں جب مرد ہمارے پاس سے گزرتے، تو ہم اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیتے اور جب ہم ان سے آگے نکل جاتے، تو ہم اپنے چہروں کو ننگا کر لیاکرتے تھے۔”
(سنن ابی داؤد، المناسک، باب فی المحرمة تغطی وجہہا، حدیث: ۱۸۳۳، وقال الألبانی ’’ضعیف‘‘)

ان دونوں روایات میں کس طرح ہم آہنگی پیدا کی جائے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے کی صحیح اور راجح بات وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے واضح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے محرم عورت کو نقاب پہننے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا:

محرم عورت کے لیے نقاب پہننا مطلقاً ممنوع ہے، خواہ اجنبی مرد اس کے پاس سے گزریں یا نہ گزریں۔

❀ یہ ممانعت حج اور عمرہ دونوں کے احرام کی حالت میں شامل ہے۔

"نقاب” کا مطلب وہ پردہ ہے جو عورت چہرے پر اس طرح ڈالے کہ آنکھوں کے لیے الگ سے سوراخ بنے ہوں تاکہ وہ دیکھ سکے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی وضاحت:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو بظاہر نبی کریم ﷺ کی ممانعت والی حدیث کے خلاف سمجھا جا سکتا ہے، لیکن:

❀ اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ عورتیں نقاب پہنتی تھیں۔

❀ بلکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ نقاب کے بغیر ہی وہ اپنے چہروں کو چھپا لیتی تھیں۔

❀ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا جائز ہے، مگر بغیر نقاب کے۔

اجنبی مردوں کے پاس سے گزرنے کی صورت:

❀ جب اجنبی مرد عورتوں کے قریب سے گزریں، تو چہرے کو ڈھانپنا واجب ہے۔

❀ لیکن یہ نقاب کے بغیر کسی اور کپڑے یا چادر کے ذریعے ہونا چاہیے۔

لہٰذا، محرم عورت کے لیے نقاب پہننا مطلقاً حرام ہے۔

❀ افضل یہی ہے کہ محرم عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے، لیکن اجنبی مردوں کے قریب آنے پر چہرے کو ضرور چھپا لے — بغیر نقاب کے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1