سوال
جس شخص نے حج تمتع کا احرام باندھا اور عمرہ ادا کر لیا، لیکن جہالت کی وجہ سے احرام نہ کھولا حتیٰ کہ اس نے قربانی بھی کر دی، تو اس پر کیا لازم آتا ہے؟ کیا اس کا حج صحیح ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ جب وہ حج تمتع کا احرام باندھ لے، اور طواف اور سعی مکمل کر لے، تو پھر وہ اپنے پورے سر کے بال کٹوا کر احرام کھول دے۔ اس عمل کے بعد احرام کھول دینا اس کے لیے لازم ہے۔
اب اگر ایسا شخص احرام کی حالت میں ہی رہا اور اس نے عمرہ کے طواف کے شروع ہونے سے پہلے حج کی نیت کر لی، تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اس صورت میں اس کا حج "حج قران” شمار ہوگا، اور جو قربانی اس نے دی وہ حج قران کی قربانی قرار پائے گی۔
لیکن اگر وہ اب تک عمرہ ہی کی نیت پر قائم تھا اور اس نے طواف اور سعی مکمل کر لی تھی، پھر حج کا احرام باندھا، تو بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ اس صورت میں حج کا احرام باندھنا درست نہیں ہوتا کیونکہ عمرہ کے طواف کے بعد حج کو عمرہ پر داخل کرنا شرعاً درست نہیں۔
البتہ کچھ دوسرے اہل علم کا موقف یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
یہ بات مدِنظر رہے کہ یہ شخص جاہل تھا، اس لیے میری رائے بھی یہی ہے کہ:
◈ اس پر کوئی فدیہ یا کفارہ لازم نہیں۔
◈ اور ان شاء اللہ تعالیٰ، اس کا حج درست اور صحیح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب