سوال
میں نے بعض طواف کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے اپنی خواتین کو آگے ڈھکیلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا افضل ہے یا مردوں کی بھیڑ سے عورتوں کا دور رہنا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سائل کو یہ حیران کن عمل دیکھنے کو ملا ہے کہ لوگ عورتوں کو حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، تو میں نے اس سے بھی زیادہ افسوسناک منظر دیکھا ہے۔ بعض لوگ فرض نماز کے ختم ہونے سے پہلے ہی کھڑے ہو کر حجر اسود کو چومنے کی کوشش میں دوڑنے لگتے ہیں۔ یوں وہ اسلام کے ایک اہم رکن یعنی فرض نماز کو ترک کر دیتے ہیں محض ایک ایسے عمل کی خاطر جو نہ واجب ہے اور نہ ہی طواف کے بغیر اس کا جواز موجود ہے۔
یہ سراسر جہالت پر مبنی رویہ ہے، اور جتنا بھی اس پر افسوس کیا جائے، کم ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا صرف طواف کے دوران سنت ہے، طواف کے علاوہ اس کی مشروعیت ثابت نہیں ہے۔ اگر کسی کو علم ہے کہ طواف کے بغیر بھی حجر اسود کو چومنا یا اس کا استلام کرنا سنت ہے، تو ہمیں ضرور بتائے، تاکہ ہم بھی اس علم سے مستفید ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطا فرمائے۔
طواف میں حجر اسود کا بوسہ دینا:
✿ حجر اسود کو چومنا طواف کے دوران سنت عمل ہے۔
✿ لیکن یہ عمل اسی وقت سنت سمجھا جائے گا جب:
◈ اس سے طواف کرنے والے یا کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔
متبادل طریقے جب ایذا کا خطرہ ہو:
اگر بوسہ دینے میں دوسروں کو ایذا پہنچنے کا خدشہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں متبادل طریقے بتائے:
➊ پہلا متبادل:
◈ ہاتھ سے حجر اسود کو چھو لیا جائے اور پھر اس ہاتھ کو بوسہ دے لیا جائے۔
➋ دوسرا متبادل:
◈ اگر ہاتھ لگانے میں بھی تکلیف یا دھکم پیل ہو، تو صرف دائیں ہاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کیا جائے، لیکن بوسہ نہ دیا جائے۔
یہ تمام طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں۔
عورتوں کو حجر اسود کے لیے دھکیلنا:
✿ اگر مرد اپنی خواتین کو حجر اسود کو چومنے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، تو یہ انتہائی نامناسب طرز عمل ہے، کیونکہ:
◈ ان خواتین میں کوئی حاملہ ہو سکتی ہے۔
◈ کوئی عمر رسیدہ عورت ہو سکتی ہے۔
◈ کوئی ایسی لڑکی ہو سکتی ہے جو دھکم پیل برداشت نہ کر سکے۔
◈ ممکن ہے کسی عورت نے بچہ اٹھایا ہوا ہو۔
ان تمام صورتوں میں عورتوں کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ ہوتا ہے، اور مردوں کے ساتھ ٹکراو کا بھی امکان رہتا ہے۔ یہ طرز عمل یا تو حرام ہے یا کم از کم مکروہ۔
شرعی ہدایت:
✿ کسی شخص کو ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو اذیت ہو۔
✿ دین اسلام میں اس حوالے سے وسعت ہے، لہٰذا خود پر سختی نہ کریں۔
✿ اگر آپ دوسروں پر سختی کریں گے، تو اللہ تعالیٰ بھی آپ پر سختی فرمائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب