سوال:
حالت حیض میں مباشرت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
 مباشرت دو طرح کی ہوتی ہے؛ ایک مباشرت سے مراد جماع ہے اور دوسری مباشرت سے مراد بوسہ و کنار اور بغل گیر ہونا ہے۔ حالت حیض میں جماع حرام ہے، البتہ دوسری قسم کی مباشرت جائز ہے۔
 ❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كان يأمرني، فأتزر، فيباشرني، وأنا حائض 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حالت حیض میں حکم دیتے، تو میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے مباشرت فرماتے۔
(صحیح البخاری: 299، صحیح مسلم: 297) 
بعض لوگ لفظ مباشرت سے جماع مراد لے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر طعن ہے، حالانکہ ان سب احادیث میں ایسی مباشرت کا ذکر ہے جس میں مقام جماع کپڑے سے ڈھکا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جماع ممکن ہی نہیں رہتا۔ پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہاں مباشرت سے مراد جماع ہے؟
 ❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
اعلم أن مباشرة الحائض أقسام، أحدها أن يباشرها بالجماع فى الفرج، فهذا حرام بإجماع المسلمين، بنص القرآن العزيز، والسنة الصحيحة 
جان لیجیے کہ حائضہ سے مباشرت کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک جماع ہے۔ اس کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور قرآن عزیز اور سنت صحیحہ کی نصوص بھی اس کے حرام ہونے پر شاہد ہیں۔
(شرح النووی: 204/3، المجموع: 359/2) 
 ❀ نیز فرماتے ہیں:
المباشرة فيما فوق السرة وتحت الركبة بالذكر أو بالقبلة أو المعانقة أو اللمس أو غير ذلك وهو حلال باتفاق العلماء 
اگر مباشرت میں ناف کے اوپر اور گھٹنے کے نیچے شرمگاہ مس کی جائے، یا بوسہ و کنار یا معانقہ کیا جائے یا جسم سے جسم ملایا جائے، یا (جماع کے علاوہ) اس جیسا کوئی کام کیا جائے، تو یہ حلال ہے، اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
