جنابت کی حالت میں روزہ شروع کرنا: قرآن و حدیث کی روشنی میں
بہت سے لوگ یہ غلط فہمی رکھتے ہیں کہ جنابت کی حالت میں روزہ شروع کرنا جائز نہیں اور پہلے غسل کرنا لازمی ہے، ورنہ روزہ قبول نہیں ہوگا۔ اس تحقیق میں قرآن، حدیث، صحابہ کرامؓ کے اقوال اور فقہاء کے اجماع کی روشنی میں تفصیل سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے جنابت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا”
(المائدہ: 6)
ترجمہ:
"اور اگر تم جنبی ہو تو پاکی حاصل کرو۔”
یہ آیت نماز کے لیے غسل کی فرضیت کو بیان کرتی ہے، لیکن اس میں روزے کے لیے کوئی ممانعت نہیں۔ اگر جنابت کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہوتا، تو قرآن میں اس کا واضح حکم موجود ہوتا، جیسا کہ حیض و نفاس کے دوران عورتوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
حدیث کی روشنی میں: نبی کریم ﷺ کا عمل
(1) نبی کریم ﷺ کا حالتِ جنابت میں روزہ رکھنا
حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
"أن رسول الله ﷺ كان يُدركه الفجر وهو جنب من أهله، ثم يغتسل ويصوم.”
(بخاری: 1926، مسلم: 1109)
ترجمہ:
"رسول اللہ ﷺ (بعض اوقات) فجر کے وقت حالتِ جنابت میں ہوتے، پھر غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔”
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جنابت کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہے اور فجر سے پہلے غسل کرنا ضروری نہیں۔
(2) حضرت ابو ہریرہؓ کا ابتدائی فتویٰ اور اس کی تصحیح
حضرت ابو ہریرہؓ نے پہلے یہ فتویٰ دیا تھا کہ جنبی شخص کا روزہ نہیں ہوتا، لیکن جب انہیں حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کی حدیث پہنچی، تو انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:
"ثم لقيتُ عبدَ الرحمنِ بنَ الحارثِ، فذكرتُ له ذلك، فقال: سَلتُ أُمَّ سلمة، فقالت: كان النبي ﷺ يصبح جنبًا من جماع غير احتلام ثم يصوم، قال: فرجعتُ إلى موقفي، فسألتُ عائشة، فقالت مثل ما قالت أم سلمة، ثم رجعتُ فأخبرتُ من سألني، فقلت لهم: اسمعوا هذا وأخبرهم بما قالته عائشةُ وأمُّ سلمةَ.”
(مسلم: 1109)
ترجمہ:
"پھر میں عبدالرحمٰن بن حارث سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: میں نے ام سلمہؓ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بعض اوقات جنابت کی حالت میں روزہ رکھتے تھے۔ پھر میں واپس آیا اور حضرت عائشہؓ سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت ام سلمہؓ نے دیا تھا۔ پھر میں نے اپنی پہلی بات کی تصحیح کر دی اور لوگوں کو بتایا کہ جو میں نے پہلے کہا تھا، وہ غلط تھا۔”
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے ابتدائی طور پر غلط فتویٰ دیا، لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر لی۔
صحابہ کرامؓ کے اقوال اور اجماع
(1) حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کا قول
◈ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ان دونوں امہات المؤمنین نے واضح طور پر بتایا کہ نبی کریم ﷺ حالتِ جنابت میں فجر کے وقت ہوتے، پھر غسل کرکے روزہ رکھتے۔
(2) حضرت ابن عباسؓ کا فتویٰ
حضرت ابن عباسؓ سے جب سوال کیا گیا کہ کیا حالتِ جنابت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا:
"نعم، لأن النبي ﷺ كان يفعل ذلك.”
(مصنف عبدالرزاق: 4/188، رقم: 7275)
ترجمہ:
"ہاں، کیونکہ نبی کریم ﷺ ایسا کیا کرتے تھے۔”
(3) حضرت علیؓ کا فتویٰ
◈ حضرت علیؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ جنبی شخص روزہ رکھ سکتا ہے اور فجر کے بعد غسل کر سکتا ہے۔
فقہاء کا اجماع
تمام فقہی مذاہب کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ:
اگر کوئی شخص فجر کے وقت حالتِ جنابت میں ہو، تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے، اور غسل بعد میں کرے گا۔
(1) امام نوویؒ (شافعی فقیہ) لکھتے ہیں:
"أجمعت الأمة على صحة صوم من أصبح جنبًا.”
(شرح النووي على مسلم: 8/32)
ترجمہ:
"امت کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص جنابت کی حالت میں صبح کرے، اس کا روزہ صحیح ہے۔”
(2) امام ابن قدامہؒ (حنبلی فقیہ) فرماتے ہیں:
"لا فرق في هذا بين الرجل والمرأة، وهو مذهب الأئمة الأربعة.”
(المغني لابن قدامہ: 3/113)
ترجمہ:
"اس مسئلے میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں، اور یہی چاروں ائمہ کا مذہب ہے۔”
خلاصہ اور نتیجہ
جنبی شخص (مرد یا عورت) روزہ رکھ سکتا ہے، اگرچہ وہ غسل نہ کر سکا ہو۔
نبی کریم ﷺ کا خود عمل اس پر دلیل ہے۔
حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ نے یہی فتویٰ دیا۔
امام نوویؒ، امام ابن قدامہؒ اور چاروں فقہی مذاہب کا اجماع ہے کہ روزہ صحیح ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہؓ نے ابتدائی طور پر غلط فتویٰ دیا تھا، لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر لی۔
لہٰذا، جو شخص حالتِ جنابت میں فجر کے وقت ہو، وہ روزہ رکھ سکتا ہے اور غسل بعد میں کر سکتا ہے۔
اللہ ہمیں دین کو صحیح سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!