یہ مضمون ایک تحقیقی رَدّ ہے جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ:
❀ واقعی اور مطلق حاجت روا صرف اللہ تعالیٰ ہے؛
❀ بعض حضرات نے اس عنوان پر جو روایات پیش کی ہیں، ان کی سند و متن کا علمی معیار کیا ہے؛
❀ کن مقامات پر ائمہِ حدیث نے ان روایات کو ضعیف/منکر/موضوع قرار دیا؛
❀ اور آخر میں یہ کہ صلحاءِ اُمت کی خدمت و نصیحت بجا، مگر عقیدہ سازی صرف صحیح نصوص سے ہوگی۔
① پہلی پیش کردہ روایت — ابنِ عمرؓ: “اللہ نے کچھ بندوں کو لوگوں کی حاجتوں کے لیے خاص کیا”
«إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ، يَفْزَعُ النَّاسُ إِلَيْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ، أُولَئِكَ الْآمِنُونَ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ.»
“اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اُس نے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے (کی خدمات) کے لیے بنایا ہے؛ لوگ ضرورت کے وقت اُنہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، یہی لوگ اللہ کے عذاب سے امن میں ہیں۔”
المعجم الکبیر للطبرانی، 12/358، رقم 13334
سند کا خلاصہ
محمد بن عثمان بن أبي شیبہ → أحمد بن طارق الواَبِشي → عبد الرحمن بن زید بن أسلم → زید بن أسلم → عبد الله بن عمرؓ.
اس سند کی بنیادی علت عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے؛ ائمہِ حدیث کے نزدیک وہ سخت کمزور ہیں، حتی کہ ان کی منفرد روایات سے احتجاج جائز نہیں۔
✿ ابنِ حِبّان (المجروحین):
«مِمَّنْ يُقَلِّبُ الْأَخْبَارَ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ، حَتّى كَثُرَ ذٰلِكَ فِي رِوَايَتِهِ مِنْ رَفْعِ الْمُرْسَلِ وَإِسْنَادِ الْمَوْقُوفِ، فَاسْتَحَقَّ التَّرْك.»
ترجمہ: “(یہ ان رواۃ میں سے ہے) جو بے سمجھے روایات کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے؛ اس کی روایتوں میں بارہا مُرسَل کو مرفوع اور موقوف کو مسند بنا دینا پایا گیا؛ لہٰذا وہ ترک کے لائق ہے۔”
مآخذ: ابن حبان، المجروحین.
✿ الطحاوی (حنفی) — شرح مشکل الآثار:
«حَدِيثُهُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ فِي النِّهَايَةِ مِنَ الضَّعْف.»
ترجمہ: “اہلِ حدیث کے نزدیک اس کی حدیث انتہائی درجے کی کمزور ہے۔”
مآخذ: الطحاوی، شرح مشکل الآثار.
✿ ابو بکر البزّار — مسند البزّار:
«مُنْكَرُ الْحَدِيثِ جِدًّا.»
ترجمہ: “(یہ) بہت زیادہ منکر الحدیث ہے۔”
مآخذ: البزّار، المسند.
نوٹ: عبدالرحمن بن زید کے بارے میں تضعیف جماعی ہے؛ یہی علت اس روایت کے عدمِ احتجاج کے لیے کافی ہے۔ باقی سند کے بعض راوی (مثلاً أحمد بن طارق الواَبِشی) بھی غیر معروف/محلِّ نظر بتائے گئے ہیں، مگر مرکزی ضعف عبدالرحمن بن زید کی وجہ سے ہے۔
متن (دلالت) پر تنبیہ
✿ روایت کا جملہ “يَفْزَعُ النَّاسُ إِلَيْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ” عمومی ترغیب کے انداز میں ہے؛ اس سے عقیدہ میں “کسی مخلوق کو مستقل حاجت روا” ماننا ثابت نہیں ہوتا—اور جب سند ہی غیر معتبر ہو تو دلالت پر استدلال سرے سے ساقط ہے۔
✿ عقائد کے ابواب میں اصولِ حدیث کے مطابق صحیح/حَسَنِ لذاتہ نصوص مطلوب ہوتی ہیں؛ ضعیف/منکر سے عقیدہ نہیں بنتا۔
حتمی حکم
✿ حکمِ روایت: ضعیف (غیر قابلِ احتجاج)
✿ عقیدہ/تصورِ “حاجت روائی”: صرف اللہ حقیقی حاجت روا ہے؛ مخلوق کے اسبابی تعاون کی شرعاً حیثیت الگ باب ہے، مگر اس روایت سے اس کا عقائدی اثبات نہیں ہوتا۔
② دوسری پیش کردہ روایت — “اُطْلُبُوا الْـخَيْرَ/الْـحَوَائِجَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوهِ”
اصل متن (مختلف کتب، متعدد طرق):
عربی:
«اِطْلُبُوا الْحَوَائِجَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوهِ»
اور بعض طرق میں: «اِطْلُبُوا الْخَيْرَ عِنْدَ حِسَانِ الْوُجُوهِ»
اردو ترجمہ:
“اپنی حاجتیں خوبصورت چہروں والوں کے پاس طلب کرو” یا “بھلائی خوبصورت چہروں والوں کے پاس تلاش کرو۔”
سند کا خلاصہ
یہ روایت بیسیوں اسانید سے منقول ہے، لیکن تمام کے تمام طرق ضعیف یا موضوع ہیں۔ ان میں مجہول، متروک، وضّاع، مدلس اور کثیر الخطا رواۃ پائے جاتے ہیں۔
✿ ابن عدی (الکامل):
اس روایت کو منکرات میں شمار کرتے ہوئے لکھا کہ اس کی اسناد سے آنے والی پندرہ سے زائد روایات سب من گھڑت ہیں، اور متن باطل ہے۔
✿ حافظ عراقی (المغنی):
«وَلَهُ طُرُقٌ كُلُّهَا ضَعِيفَة»
ترجمہ: “اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں۔”
✿ ابو عبد الرحمن الحوت الشافعی (أسنى المطالب):
«طرقها كلها ضعيفة»
ترجمہ: “اس روایت کے سب کے سب طرق ضعیف ہیں۔”
✿ حافظ ذہبی (میزان الاعتدال):
بعض اسانید کے بارے میں فرمایا: “خبر باطل ہے”۔
✿ رضی الدین الصَّغانی (الموضوعات):
اس روایت کو صریح طور پر موضوعات میں شامل کیا۔
✿ ابن الجوزی (تلبيس إبليس):
واضح کیا کہ یہ روایت رسول اللہ ﷺ سے کسی بھی صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں۔
منتخب طرق اور ان کی علل
❀ طریقِ عائشہؓ (فضائل الصحابہ لابن حنبل)
— إسمٰعیل بن عیاش عن جَبْرَة/خَیْرَة بنت محمد بن ثابت بن سباع (مجہولہ) عن أبیہا (مجہول الحال)
◈ علت: مجہول رواۃ، اس لیے سند ضعیف ہے۔
❀ طریقِ ابنِ عمرؓ (المنتخب لعبد بن حمید)
— محمد بن عبدالرحمن بن المُجْبِر عن نافع
◈ النسائی، دارقطنی: متروک الحدیث۔
❀ طریقِ جابرؓ (المعجم الأوسط)
— محمد بن زکریا الغلابی (یضع الحدیث) ، سلیمان بن کُراز (ضعیف)، عمر بن صُهبان (متروک)
◈ علت: واضعِ حدیث اور متروک راوی، اس لیے موضوع۔
❀ سلسلۂ خُصَیفہ (المعجم الکبیر)
— یحییٰ بن یزید النوفلی (ضعیف/منکر الحدیث)، عبداللہ بن خُصَیفہ (مجہول)، خُصَیفہ بن یزید (مجہول)
❀ طریقِ ابوہریرہؓ (أبو الشیخ، کتاب الأمثال)
— طلحہ بن عمرو الحضرمی: متروک الحدیث (أحمد: «لا شيء، متروك»)
نوٹ برائے متن (دلالت)
✿ یہ جملہ “خوبصورت چہروں والوں کے پاس بھلائی تلاش کرو” متنًا منکر ہے، کیونکہ اس کا سیاق کئی باطل صوفیانہ تصرفات کے لیے بطور دلیل استعمال کیا گیا۔
✿ جب تمام اسانید ضعیف یا موضوع ہوں تو متن پر استدلال سرے سے باطل ہے۔
حتمی حکم
✿ حکمِ روایت: سخت ضعیف/موضوع (کسی بھی سند سے صحیح نہیں)
✿ عقیدہ یا عمل میں حیثیت: اس روایت سے عقیدہ یا شرعی استدلال جائز نہیں۔
③ تیسری پیش کردہ روایت — “يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي”
اصل متن (المعجم الکبیر للطبرانی، 17/117، رقم 17103):
عربی:
«إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا، أَوْ أَرَادَ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ»
اردو ترجمہ:
“جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے یا تمہیں کسی مدد کی ضرورت ہو اور تم ایسی جگہ ہو جہاں کوئی جاننے والا نہ ہو تو یہ کہو: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، بے شک اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نظر نہیں آتے۔”
سند کا خلاصہ
الحسین بن إسحاق التستري → أحمد بن يحيى الصوفي → عبد الرحمن بن سهل → أبیہ → عبد الله بن عيسى → زيد بن علي → عتبة بن غزوان → نبی ﷺ
اس سند میں عبد الرحمن بن سهل دراصل عبد الرحمن بن شریک النخعي ہے، اور اس کی نسبت میں کتابت کی غلطی ہوئی۔
“عبدالرحمن بن سهل” دراصل “عبدالرحمن بن شریک” کیوں ہے؟
◈ لفظ ‘أبي’ (میرے والد) کے بعد کا شیخ: سند میں “حدّثنی أبي، عن عبد الله بن عيسى” ہے۔ معلوم و مشہور کُوفی راوی شَرِيك بن عبد الله القاضي کثرت سے عبد الله بن عيسى بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سے روایت کرتے ہیں؛ یہ استاد و شاگردی کا معروف جوڑ ہے۔
❀ اگر یہاں “عبدالرحمن بن سهل” مانا جائے تو “اس کا والد (سہل)” کون ہے جو عبداللہ بن عیسیٰ سے روایت کرتا ہو؟ ایسا کوئی معتبر و معروف “سہل” اس نسبت سے معلوم نہیں؛ نتیجتاً یہ جوڑ مجہول/منقطع بن جاتا ہے۔
✿ برعکس اس کے اگر “عبدالرحمن بن شَرِيك” پڑھا جائے تو “أبي” سے مراد آئندہ طبقے کا معروف راوی شَرِيك بن عبد الله القاضي بنتا ہے—اور اس کا عبداللّٰہ بن عیسیٰ سے روایت کرنا ثابت و مشہور ہے۔ اس طرح سند شناختی سطح پر جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
◈ املا/کتابت کا سببِ تصحیف: قدیم نسخوں میں نقطوں/حرکات کی کمی، اور اسناد کے تیز نقل ہونے کے باعث سهل/شريك جیسی مماثلتیں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں (سین/شین کی خفیف تبدیلی، اور ر+ی+ک کی رسمِ خط میں التباس)۔ اسماء الرجال میں ایسے تصحیفات مشہور ہیں جنہیں محققین قرائنِ اتصالِ طبقات اور معروف شیوخ سے درست کرتے ہیں۔
عبد الرحمن بن شریک النخعي پر ائمہ کی جرح
✿ ابو حاتم الرازی (الجرح والتعديل):
«واهي الحديث»
ترجمہ: “حدیث میں بہت کمزور ہے۔”
✿ ابن حبان (المجروحین):
ذکر کیا کہ وہ کثیر الغلط ہے اور متروک کے قریب ہے۔
✿ ابن حجر (تقریب):
راوی کو دسویں طبقہ میں ذکر کر کے وضاحت کی کہ اس کی روایت حجت نہیں۔
✿ شعیب الأرناؤوط (تحقیق مسند أحمد):
اس کو صراحتاً ضعیف کہا۔
مزید علتیں
① شریک بن عبد الله القاضي: جمہور محدثین کے نزدیک کثیر الخطا، اور قاضی بننے کے بعد اختلاط کا شکار۔
② انقطاع: زید بن علی (پیدائش 76ھ) کا سماع کسی بھی صحابی سے، اور خاص طور پر عتبہ بن غزوان (وفات 17ھ) سے ممکن نہیں، دونوں کے درمیان تقریباً 59 سال کا فاصلہ ہے۔
اقوالِ محدثین برائے سند
✿ ہیثمی (مجمع الزوائد، 17103):
«رجاله وُثِّقوا على ضعف في بعضهم، إلا أن زيد بن علي لم يُدرك عتبة.»
ترجمہ: “اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے، مگر بعض میں ضعف ہے، اور زید بن علی کا عتبہ سے سماع نہیں۔”
نوٹ برائے متن (دلالت)
✿ روایت میں ایک غیر مرئی مخلوق سے مدد مانگنے کی ترغیب ہے، مگر جب سند ہی ضعیف اور منقطع ہو تو اس سے عقیدہ یا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
✿ اس جملے “فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ” سے مراد ملائکہ یا جنات پر قیاس ممکن ہے، مگر نصِ صحیحہ کے بغیر اسے مخلوق کی عبادت یا عقیدۂ حاجت روائی پر فٹ کرنا باطل ہے۔
حتمی حکم
❀ حکمِ سند: منقطع + ضعیف جداً (عبدالرحمن بن شریک کی وجہ سے)
❀ استدلالی حیثیت: ناقابلِ احتجاج—عقائد یا اذکار کے اثبات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
❀ دلالت: اگر سند صحیح بھی ہوتی تب بھی یہ غیر مرئی مخلوق (ملائکہ/جن) کی نصرت کو عام سبب کے طور پر بیان کرتی، مخلوق کو مستقل حاجت روا ماننے کا عقیدہ اس سے ثابت نہیں ہوتا؛ اور موجودہ صورت میں تو سند ہی ساقط ہے۔
📜 خلاصۂ تحقیق
① بریلوی مکتبِ فکر کی پیش کردہ حاجت روائی اور غیر اللہ کو پکارنے کے جواز پر مشتمل تمام مرفوع روایات کا سندی و متنی جائزہ لیا گیا۔
② ہر روایت کے رواۃ کا علمی مقام ائمۂ جرح و تعدیل کی تصریحات کے ساتھ پیش کیا گیا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ:
-
بعض میں مجہول الحال رواۃ ہیں۔
-
بعض میں متروک الحدیث یا وضّاع (حدیث گھڑنے والے) رواۃ ہیں۔
-
کئی اسانید میں مدلسین کی عنعنہ، یا اختلاط کے بعد کا سماع، یا انقطاع جلی پایا جاتا ہے۔
-
بعض متون کو ائمہ نے باطل یا منکر قرار دیا ہے۔
③ خاص طور پر تین مشہور روایات:
-
“إن لله خلقا خلقهم لحوائج الناس” → سنداً ضعیف (عبدالرحمن بن زید بن اسلم)۔
-
“اطلبوا الحوائج عند حسان الوجوه” → تمام طرق ضعیف/موضوع۔
-
“يا عباد الله أغيثوني” → سنداً ضعیف جداً (عبدالرحمن بن شریک) + انقطاع۔
④ ائمہ حدیث (محمد بن درویش شافعی، ابن القیم، ابن الجوزی) نے مجموعی طور پر “ابدال” اور اس طرح کے مزعومہ تصرفات والی تمام روایات کو ضعیف یا باطل قرار دیا ہے۔
⑤ سلف صالحین کے اقوال سے یہ واضح ہوا کہ “ابدال” کا صحیح مفہوم اہلِ علم اور اصحاب الحدیث ہیں، نہ کہ صوفیہ کے عقیدے والے "غوث، قطب” وغیرہ۔
⚖️ حتمی نتیجہ
❀ عقیدۂ حاجت روائی میں اصل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے؛ مخلوق اسباب کا ذریعہ بن سکتی ہے مگر اسے مستقل حاجت روا ماننا شرعاً باطل اور شرک کا سبب ہے۔
❀ بریلوی مکتبِ فکر کی طرف سے پیش کی گئی روایات سندی و متنی اعتبار سے ناقابلِ احتجاج ہیں، اور ان سے عقیدہ یا شرعی عمل ثابت نہیں ہوتا۔
❀ جو دعوے ان پر مبنی ہیں وہ علمی، اصولی اور شرعی معیار پر پورے نہیں اترتے، بلکہ امت کو گمراہی میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اہم حوالاجات کے سکین






















