حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جیسا کہ نافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمرؓ نے نبی اکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا:
مرہ فلیراجعھا، ثم لیطلقھا أو حاملا۔
انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کرلیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔
(صحیح بخاری :۵۲۵۱، صحیح مسلم:۱۴۷۱،واللفظ لہ)
فلیراجعھا کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟امام بخاریؒ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:‘‘اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہوگی۔’’
ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا توآپﷺ نے فرمایا، ہاں(سنن الدارقطنی:۵/۴،سنن الکبری للبیھقی: ۳۲۶/۷،وسندہ حسن)
نیز سیدناابن عمرؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی اکرمﷺ نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔
(مسند الطیالسی:۶۸،مسند عمر بن خطاب لابن النجاد:۱، وسندہ صحیح)
صاحب واقعہ سیدنا ابن عمرؓ خود فرماتے ہیں: ‘‘ یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔’’(صحیح بخاری:۵۲۵۳) راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:‘‘سیدنا ابن عمرؓ کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہوگئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔’’
(سنن الدارقطنی:۶/۳،مسند عمربن الخطاب،تحت حدیث:۳وسندہ حسن)
امام عطابن ابی رباح (مصنف ابن ابی شیبۃ:۵/۵،وسندہ صحیح) امام زہری( ایضا،وسندہ صحیح) امام ابن سیرین(ایضا،وسندہ صحیح)،امام جابرزید(ایضا،وسندہ صحیح) اور تمام محدیثن وائمہ دینؒ حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے،لیکن خود رسول اللہﷺ نے اسے نافذ بھی کیا لہذااس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
سنن ابی داوٗد(۲۱۸۵)میں یہ الفاظ ہیں کہ:
فردھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ولم یرھا شیا۔۔۔
آپﷺ نے اس کولوٹا دیااور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔’’
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیاہے،لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔
سنن النسائی (۳۴۲۷،وسندہ صحیح)کے الفاظ:
‘‘سیدنا ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی اکرمﷺ نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کردیا(رجوع کا حکم دیا)حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔’’
مطلب یہ ہےکہ پہلی طلاق کے واقع ہوجانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہوجائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمرؓ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے۔