جہنم کے سانس کی وجہ سے گرمی اور سردی – تفصیلی وضاحت
سوال:
جہنم کے سانس کی وجہ سے گرمی اور سردی ہوتی ہے۔ جبکہ دنیا میں کچھ مقامات جیسے مری اور سوات میں گرمیوں میں بھی ٹھنڈک ہوتی ہے، اور بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں کبھی گرمی نہیں پڑتی اور کچھ میں کبھی سردی نہیں ہوتی۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر وضاحت کریں کہ حدیث میں مذکور "جہنم کے سانس” سے گرمی کیوں پڑتی ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات بالکل درست ہے کہ جس حدیث میں ذکر ہے کہ جہنم سانس لیتی ہے، جس کی وجہ سے گرمی بڑھتی ہے، وہ صحیح اور معتبر حدیث ہے۔
احادیث کی تصدیق:
یہ حدیث درج ذیل کتب حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی اسناد کے ساتھ روایت کی گئی ہے:
◈ امام بخاری (حدیث نمبر: ۵۳۷)
◈ امام مسلم (حدیث نمبر: ۶۱۷)
◈ امام مالک (الموطأ ۱۶/۱، حدیث: ۲۷)
◈ امام شافعی (کتاب الأم، صفحہ ۵۸، حدیث: ۱۱۳)
◈ امام احمد بن حنبل (المسند ۲۳۸/۲، حدیث: ۷۲۴۶)
اس کے شواہد صحیفہ ہمام بن منبہ (حدیث: ۱۰۸) میں بھی موجود ہیں۔
اسی طرح دوسرے صحابہ کرام سے بھی یہ روایت ملتی ہے:
◈ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: حدیث ۵۳۸)
◈ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: ۵۳۵، صحیح مسلم: ۶۱۶)
◈ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (السنن الکبریٰ للنسائی ۴۶۵/۱، حدیث: ۱۴۹۰)
علماء کی آراء:
◈ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ حدیث مجاز (تشبیہ) پر محمول ہے، یعنی استعاراتی معنی رکھتی ہے۔
◈ جبکہ کچھ علماء اسے حقیقی معنی میں لیتے ہیں۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفی ۴۶۵ھ) فرماتے ہیں:
’’ولكلا القولين وجه يطول الاعتلال له، والله الموفق للصواب‘‘
یعنی: یہ دونوں آراء واضح دلیل رکھتی ہیں، جن پر طویل بحث کی جا سکتی ہے، اور اللہ ہی صحیح بات کی توفیق دینے والا ہے۔
(التمہید ۱۱۷/۱۹)
حدیث کا حقیقی مطلب:
اگر ہم اس حدیث کو حقیقی معنی میں لیں، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین پر جو شدید گرمی ہوتی ہے، وہ جہنم کے سانس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کیفیت کی اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مختلف علاقوں میں سردی کا ہونا:
اگرچہ یہ مانا جائے کہ گرمی جہنم کے سانس کی وجہ سے ہے، تب بھی دنیا کے بعض مقامات پر گرمیوں میں بھی ٹھنڈک پائی جاتی ہے۔ یہ استثنائی صورتیں ہیں اور ان کے پیچھے کچھ موانع موجود ہوتے ہیں، جیسے:
◈ شدید گرمی میں بارش ہو جائے تو موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
◈ اونچے پہاڑ، گھنے درخت اور برف ایسے عوامل ہیں جو گرمی کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔
یہ رکاوٹیں (موانع) گرمی کے اثرات کو کم کرتی ہیں، لیکن اصولی بات تبدیل نہیں ہوتی۔
قرآن مجید سے نظیر:
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنّا خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ أَمشاجٍ نَبتَليهِ فَجَعَلنـٰهُ سَميعًا بَصيرًا ﴿٢﴾
… سورة الدهر
یعنی:
’’بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، ہم اسے آزمانا چاہتے ہیں۔ پس ہم نے اسے سننے والا (اور) دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
(سورۃ الدھر: ۲)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ اندھے یا بہرے پیدا ہوتے ہیں اور پوری زندگی ایسے ہی رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ استثنائی صورتیں ممکن ہوتی ہیں، لیکن اس سے عمومی اصول میں فرق نہیں پڑتا۔
اسی طرح، جہنم کے سانس کی حدیث میں بھی استثناء اور تخصیص ممکن ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب