جہاد میں ضرورت کے علاوہ مشرکین سے مدد نہیں لی جائے گی
➊ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ، کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فارجع فلن أستعين بمشرك
”تو تم واپس چلے جاؤ کیونکہ میں کسی مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ۔“
[مسلم: 1817 ، كتاب الجهاد: باب كراهة الإستعانة فى الغزو بكافر ، احمد: 67/6 ، ابو داود: 2733 ، ترمذي: 1558 ، ابن ماجة: 2832]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تستضيئوا بنار المشركين
”مشرکوں کی آگ سے روشنی حاصل مت کرو ۔ “
[ضعيف: ضعيف نسائي: 399 ، كتاب الزينة: باب قول النبى صلی اللہ علیہ وسلم لا تنقشوا على خواتيمكم عربيا ، نسائي: 5212 ، الضعيفة: 4781 ، احمد: 99/3]
➌ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اسلحہ سے لیس ہو کر آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
أقاتل أو اسلم
”میں قتال کروں یا مسلمان ہو جاؤں؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسلم ثم قاتل
”پہلے اسلام قبول کر لو پھر قتال کرو ۔“
پھر اس نے مسلمان ہو کر قتال کیا اور شہید ہو گیا ۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عمل قليلا أجر كثيرا
”اس نے عمل تھوڑا کیا لیکن اجر بہت زیادہ حاصل کر لیا ۔“
[بخارى: 2808 ، كتاب الجهاد والسير: باب عمل صالح قبل القتال ، مسلم: 1900]
ان احادیث کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مشرکین سے مدد لی ہے ۔
➊ قزمان مشرک تھا لیکن جنگ احد میں شریک ہو کر اس نے بنو عبدالدار کے تین افراد قتل کر دیے جو کہ مشرکین کے علمبردار تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله ليأزر هذا الدين بالرجل الفاجر
”اللہ تعالٰی اس دین کو فاجر شخص کے ساتھ بھی قوت پہنچاتے ہیں ۔“
[الإصابة: 335/5 – 336 ، فتح البارى: 248/8]
➋ بنو خزاعہ (حالت شرک میں ) قریش کے خلاف فتح مکہ کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ۔
[بخارى: 4280 ، سيرة ابن هشام: 46/4]
➌ حنین کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن اُمیہ سے مدد لی ۔
[نيل الأوطار: 390/5]
جہاد کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی مدد قبول فرمائی ہے ۔
➊ ابو طالب مشرک تھے لیکن وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ممکن مدد کرتے رہے ۔
➋ شعبِ أبی طالب میں محصور ہونے کے بعد بنو ہاشم اور بنو مطلب (مشرکین ) نے آپ کا ساتھ دیا لیکن آپ نے انکار نہیں کیا ۔
➌ طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطعم بن عدی (مشرک ) سے مدد طلب کی تو اس نے اپنے متعدد بیٹوں کے ساتھ آپ کو پناہ دے کر مکہ میں پر امن طریقے سے داخل کیا ۔
➍ ہجرت کے وقت مکہ سے مدینہ تک راستہ بتانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرک کو اجرت پر رکھا ۔
(احناف ) کافروں اور نافرمانوں سے مدد لینا جائز نہیں ۔
[نيل الأوطار: 691/4]
(شافعیؒ ) پہلے ممنوع تھی پھر رخصت دے دی گئی ۔
[كما فى التلخيص: 190/4]
(راجح ) ➊ احادیث کو اس طرح جمع کیا جائے گا کہ مشرکین سے ضرورت کے وقت مدد لینا جائز ہے جب کہ بغیر ضرورت جائز نہیں ۔
[الروضة الندية: 722/2]
➋ مشرک سے مدد لینا اس وقت جائز نہیں جب اس پر اعتماد نہ ہو یا وہ آپ کا حلیف نہ ہو ، ورنہ مدد لینا درست ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں متعدد واقعات موجود ہیں ۔
❀ منافق سے مدد لینا بالاتفاق جائز ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں سے جنگ اُحد کے وقت تعاون کیا ۔
[بخاري: 3904 ، مسلم: 2772]