ہر نیک و بد حکمران کے ساتھ
کیونکہ جہاد کے وجوب کے لیے جہاں بے شمار احکامات ہمیں کتاب و سنت میں ملتے ہیں وہاں ایسی کوئی شرط نہیں ملتی کہ جہاد صرف نیک حکمران کے ساتھ ہی کیا جائے گا ۔ البتہ جہاد کا صرف اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے ہونا بہر صورت ضروری ہے ۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے آدمی کے متعلق دریافت کیا گیا جو شجاعت دکھانے کے لیے لڑتا ہے اور غیرتِ ملی کے لیے لڑتا ہے اور ریا کاری کے لیے لڑتا ہے ان میں سے کون سا فی سبیل اللہ لڑائی کر رہا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو فى سبيل الله
”جو شخص اس نیت سے لڑا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ فی سبیل اللہ ہے ۔“
[بخاري: 123 ، 2810 ، 3126 ، كتاب العلم: باب من سأل وهو قائم عالما جالسا ، مسلم: 1904 ، احمد: 392/4 ، ابو داود: 2517 ، ترمذي: 1646 ، نسائي: 23/6 ، ابن ماجة: 2783 ، ابن حبان: 4636 ، بيهقى: 167/9 ، طيالسي: 487]
درج ذیل احادیث بھی اس مسئلے کی تائید کرتی ہیں لیکن ان میں ضعف ہے ۔
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجهاد واجب عليكم مع كل أمير برا كان أو فاجرا وإن هو عمل الكبائر
”جہاد ہر نیک یا گنہگار حکمران کے ساتھ واجب ہے اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 52 ، ضعيف الجامع الصغير: 2673 ، المشكاة: 1125 ، ابو داود: 2533 ، كتاب الجهاد: باب فى الغزو مع ائمة الجور ، دارقطني: 56/2 ، بيهقى: 185/8 ، العلل المتناهية لابن الجوزي: 422/1]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث من أصل الإيمان …. والجهاد ماض منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتى الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل …
”تین چیزیں ایمان کی اصل سے ہیں … اور جہاد میری بعثت سے لے کر میری امت کے آخری گروہ کے دجال کے خلاف جنگ کرنے تک جاری رہے گا اور اسے کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا عدل نہیں مٹا سکتا ۔“
[ضعيف: ضعيف الجامع الصغير: 2532 ، المشكاة: 59]
(احمدؒ ) اگر حاکم شراب پینے اور خیانت کرنے کے ساتھ بھی معروف ہو پھر بھی اس کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے گا کیونکہ ان اشیاء کا تعلق اس کے اپنے نفس سے ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مروی ہے کہ :
إن اللـه ليـؤيــد هـذا الدين بالرجل الفاجر
”اللہ تعالیٰ فاجر و گنہگار شخص سے بھی دین کی مدد لے لیتے ہیں ۔“
[بخاري: 3062 ، كتاب الجماد: باب أن الله بعبد الدين بالرجل الفاجر ، المغنى: 14/13]