جھوٹ کے بغیر خوش طبعی کرنا حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

دوست احباب کا آپس میں خوش طبعی کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ لہو و لعب کے زمرے میں آ کر منع تو نہیں، وضاحت فرمائیں؟

جواب :

دوست احباب کا آپس میں خوش طبعی کرنا اگر حقیقت پر مبنی ہو اور شریعت کا استہزاء یا مذاق نہ اڑایا گیا ہو تو بالکل درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خوش طبعی فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی ابو عمیر کے پاس سرخ چونچ والا ایک پرندہ تھا جس سے وہ کھیلتا تھا، جب وہ پرندہ مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: "اے ابو عمیر! ”سرخ چونچ والے پرندے نے کیا کیا؟ “(بخاری ح 6303، مسلم ح 3150) اور ترمذی (1990) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! یقیناً آپ بھی ہمارے ساتھ کھیلتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا۔“
ترمذی (1991) اور ابو داؤد (4998) میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمھیں اونٹ کے بچے پر سوار کروں گا۔“ اس نے کہا: ”میں اونٹ کے بچے کا کیا کروں گا؟“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔“ اسی طرح ابو داؤد (5002) اور ترمذی (1992) میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے دو کانوں والے!“
الغرض کتب احادیث میں ایسی خوش طبعی ملتی ہے جو مبنی بر حقیقت ہو اور اس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔ جو خوشی طبعی جھوٹ پر مبنی ہو وہ جائز نہیں، کیونکہ ترمذی (2315) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” اس آدمی کے لیے بربادی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے بربادی ہے، پھر اس کے لیے بربادی ہے۔“ لہٰذا جھوٹ کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے