جھوٹ بول کر سودا فروخت کرنا حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جھوٹ بول کر سودا فروخت کرنا حرام ہے
خرید و فروخت میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسمیں کھانا قطع جائز نہیں بلکہ یہ عمل برکت کو بھی مٹا دیتا ہے۔
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” (جھوٹی) قسم کے ذریعے سودا تو بک جاتا ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے۔“
[بخارى: 2087 ، كتاب البيوع: باب يمحق الله الربو ويربي الصدقات ]
➋ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم والـمـنـفـق سلعته بالحلف الكاذب
”تین آدمی ایسے ہیں روز قیامت نہ تو اللہ تعالیٰ ان سے کلام کریں گے ، نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کا تزکیہ کریں گے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہو گا جو جھوٹی قسم کے ذریعے سودا فروخت کرتا ہے ۔“
[مسلم: 154 ، كتاب الإيمان: باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية]
➌ حضرت عبد الرحمٰن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :
إن التجار هــم الفجار ، قالوا: يا رسول الله أليس قد أحل الله البيع؟ قال: بلى ، ولكنهم يحلفون فيأثمون ، ويحدثون فيكذبون
”بے شک تاجر گنہگار لوگ ہیں ۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں لیکن یہ لوگ قسمیں کھاتے ہیں اور گنہگار ہوتے ہیں اور بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح الترغيب: 1786 ، كتاب البيوع: باب ترغيب التجار فى الصدق ، احمد: 428/4 – 444 ، حاكم: 6/2]
➍ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إلينا وكنا تجارا و كان يقول يا معشر التجار إياكم و الكذب
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلتے تھے اور ہم تاجر تھے آپ فرماتے تھے اے تاجروں کی جماعت ! جھوٹ سے بچو۔“
[صحيح لغيره: صحيح الترغيب: 1793 ، كتاب البيوع: باب ترغيب التجار فى الصدق ، رواه طبراني فى المعجم الكبير باسناد لا باس به]
➎ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رجلا أقام سلعة وهو فى السوق ، فحلف بالله لقد أعطى بها مالم يعط ليوقع فيها رجلا من المسلمين ، فنزلت: ”إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا“ [آل عمران: 77]
”بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی۔ اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری:
”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں ۔“
[بخاري: 2088 ، كتاب البيوع: باب ما يكره من الحلف فى البيع]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے