جھوٹے اور دھوکے باز امام کی امامت کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1ص430

سوال

جھوٹے اور دھوکے باز امام کی امامت کا حکم کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا شخص جو دھوکہ دہی اور جھوٹ کے ذریعے لوگوں کا مال ہتھیائے، اسے امام بنانا درست نہیں کیونکہ دھوکے سے مال کمانا حرام ہے۔ اس بارے میں مشہور حدیث موجود ہے:

إن دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حرام علیکم عن جابر وفی رواية ابی بکرة قال رسول اللہﷺ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، وَأَبْشَارَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا۔ (صحیح البخاری ج۲،ص۱؍۱۰۴)

’’تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزتیں اور تمہارے جسم اور چمڑے تم پر حرام ہیں اور دوسری روایت کے مطابق تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزتیں اور تمہارے جسم اور تم پر حرام ہیں۔‘‘

دھوکہ دہی کرنے والے کی امامت کی حرمت

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((من غش فلیس منا))

یعنی ’’جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

لہٰذا جو حرام کام کرتا ہے، وہ امامت کا اہل نہیں۔

امام کے اوصاف کے بارے میں حدیث

حدیث مبارکہ میں ہے:

عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ إِجْعَلُوْا أَئِمَّتَکُمْ خِیَارَکُمْ فَإِنَّھُمْ وَفْدُکُم بَیْنَکُمُ وَبَیْنَ رَبِّکُم۔ (رواه الدار قطنی، نیل الاوطار ج۳ ص۱۶۲۔ وقد اخرجه الحاکم فی ترجمة مرثد الغنوی عنه أن سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فإنھم وفدم فیما بینکم وبین ربکم ویویذ ذلک حدیث ابن عباس المذکور۔ نیل الاوطار، ج۳ص۱۶۴)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے اچھے لوگوں کو امام بناؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور تمہارے نمائندے ہوں گے۔‘‘

اسی طرح حضرت مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو اپنے بہترین (یعنی متقی) لوگوں کو امام بناؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں تمہاری نمائندگی کریں گے۔‘‘

گناہ کبیرہ پر اصرار کرنے والے امام کا حکم

مشکوۃ شریف میں مذکور ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک ایسے امام کو امامت سے معزول کر دیا تھا جو قبلہ رخ تھوکا کرتا تھا۔ حالانکہ قبلہ کی طرف رخ کر کے تھوکنا اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا بڑا گناہ جھوٹ اور دھوکے کے ذریعے لوگوں کا مال کھانا ہے۔

لہٰذا:

❀ ایسے امام پر لازم ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے توبہ کرے۔
❀ اگر توبہ نہ کرے تو خود ہی منصب امامت سے الگ ہو جائے۔
❀ بصورت دیگر مقتدی حضرات پر لازم ہے کہ وہ اسے امامت سے ہٹا دیں۔

ورنہ مقتدی بھی تعاون علی الاثم والعدوان میں شریک ہو جائیں گے اور ان کی نمازیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

نتیجہ

یہ جواب صحتِ سوال کی بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے